جاسمن
لائبریرین
محمداحمد کی غزل کے چند اشعار کی تشریح
پہلے اپنے آپ کو مِسمار کر
پھر نیا اک آدمی تیار کر
یہ غُرور و فخر ہے کِس بات کا
عاجزی کو طُرہٴ دستار کر
شعراء و ادباء اکثر جان بوجھ کے یعنی کہ دانستہ یعنی کہ شعوری طور پہ عاجزی و انکساری اختیار کرتے ہیں۔ (حالانکہ اندر ہی اندر وہ ماسوائے خود کے کسی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔) اب یہاں شاعر خود کو خود ہی سمجھا رہے ہیں۔ اپنے لیے ناصح کا کردار خود ادا کر رہے ہیں(حالانکہ اکثر شاعر ناصح سے پرہیز ہی کرتے پائے جاتے ہیں۔) کہ بھئی غرور نہ کرو، عاجزی کو اپنی ٹوپی پہ کلغی بنا کے لگا لو۔ واہ واہ! اب ظاہر ہے کہ سوئی دھاگے سے ٹوپی پہ کلغی لگانے کا کام بھابھی نے سرانجام دینا ہے۔
جی پہلے اور دوسرے شعر کا آپس میں بڑا تعلق ہے۔ شاعر نے مطلع کی مجبوری میں پہلے والا خیال بعد میں اور بعد والا خیال پہلے ظاہر کیا ہے لیکن ہمیں ایسی کوئی مجبوری نہ ہے۔ شاعر سے جب پوچھا جاتا کہ جناب کیا کرتے ہیں تو جواب یہی ملتا کہ بندہ مزدور آدمی ہے۔ دیکھ لیں عاجزی کی کلغی والی ٹوپی پہنتے ہیں سو اسی لیے خود کو ہمیشہ مزدور بتاتے ہیں کہ جس کا فائدہ بھی ہوتا ہے کہ سید عمران بھائی کو چائے نہیں پلانی پڑتی بلکہ وہ دو چار کپ پیشگی پلا دیتے ہیں جو اگلے دو تین دنوں تک کے لیے کافی ہو جاتے ہیں۔ تو شاعر خود کو مزدور بتاتے رہے لیکن آج راز فاش ہو ہی گیا کہ موصوف مستری ہوا کرتے تھے اور رفتہ رفتہ ترقی کرتے ٹھیکیدار بن گئے۔ اب جیسا کہ ظہیراحمدظہیر بھائی جیسے سمجھدار شخص کی طرح آپ بھی جانتے ہوں گے کہ ہر شخص دوسرے کو اپنے پیشے کے آئینہ میں دیکھتا ہے۔ موچی کی نظر آپ کے جوتوں اور درزی کی آپ کے کپڑوں پہ ہوتی ہے۔ اسی طرح مستری اور ٹھیکیدار حضرات ہر چیز کو "ڈھا" کے دوبارہ بنانے کے ٹھیکے لینے کے خواہشمند رہتے ہیں۔ ویسے کراچی کی پرانی عمارتوں کا ٹھیکہ لگتا ہے کہ آج کل شاعر کے پاس ہی ہے سو انھیں ہر چیز انسان سمیت ڈھا ڈھا کے بنانے کا تازہ ترین شوق ہوا ہوا ہے۔ اب آپ سب بچ بچا کے رہیں۔ خاص کر نیرنگ خیال جیسے لوگوں کو بچ کے رہنا چاہیے کہ احمد بھائی اپنے چند شعروں کے نئے رنگ ان میں شامل کرنا چاہ رہے ہوں گے۔
سہل انگاری کہاں تک، اُٹھ ذرا
زندگی کو اور مت دشوار کر
اللہ اکبر! یہ سراسر نیرنگ خیال پہ ذاتی حملہ ہے کہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ اس شعر کے خلاف جلد ہی ہم دھرنے کا اعلان کریں گے۔ نیرنگ! فکر مت کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ کمال ہے بھئی! یعنی کہ اتنی دیدہ دلیری! اف توبہ!
خوش امیدی کو بنا بانگِ جرس
آرزو کو قافلہ سالار کر
شاعر جدید رجحانات کا علمبردار ہے اور عورت کی حکومت کا سخت ترین حامی ہے سو کہہ رہا ہے کہ آرزو کو لیڈرشپ ملنی چاہیے اور خوش امیدی کو میڈیا میں اہم مقام ملنا چاہیے۔ یہ دراصل استعاراتی شعر ہے اور خوش امیدی اور آرزو کس سیاسی پارٹی میں ہوتی ہیں؟ یہ سیاست سے دلچسپی رکھنے والے محمد وارث اور جاسم محمد جیسے لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔
پہلے اپنے آپ کو مِسمار کر
پھر نیا اک آدمی تیار کر
یہ غُرور و فخر ہے کِس بات کا
عاجزی کو طُرہٴ دستار کر
شعراء و ادباء اکثر جان بوجھ کے یعنی کہ دانستہ یعنی کہ شعوری طور پہ عاجزی و انکساری اختیار کرتے ہیں۔ (حالانکہ اندر ہی اندر وہ ماسوائے خود کے کسی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔) اب یہاں شاعر خود کو خود ہی سمجھا رہے ہیں۔ اپنے لیے ناصح کا کردار خود ادا کر رہے ہیں(حالانکہ اکثر شاعر ناصح سے پرہیز ہی کرتے پائے جاتے ہیں۔) کہ بھئی غرور نہ کرو، عاجزی کو اپنی ٹوپی پہ کلغی بنا کے لگا لو۔ واہ واہ! اب ظاہر ہے کہ سوئی دھاگے سے ٹوپی پہ کلغی لگانے کا کام بھابھی نے سرانجام دینا ہے۔
جی پہلے اور دوسرے شعر کا آپس میں بڑا تعلق ہے۔ شاعر نے مطلع کی مجبوری میں پہلے والا خیال بعد میں اور بعد والا خیال پہلے ظاہر کیا ہے لیکن ہمیں ایسی کوئی مجبوری نہ ہے۔ شاعر سے جب پوچھا جاتا کہ جناب کیا کرتے ہیں تو جواب یہی ملتا کہ بندہ مزدور آدمی ہے۔ دیکھ لیں عاجزی کی کلغی والی ٹوپی پہنتے ہیں سو اسی لیے خود کو ہمیشہ مزدور بتاتے ہیں کہ جس کا فائدہ بھی ہوتا ہے کہ سید عمران بھائی کو چائے نہیں پلانی پڑتی بلکہ وہ دو چار کپ پیشگی پلا دیتے ہیں جو اگلے دو تین دنوں تک کے لیے کافی ہو جاتے ہیں۔ تو شاعر خود کو مزدور بتاتے رہے لیکن آج راز فاش ہو ہی گیا کہ موصوف مستری ہوا کرتے تھے اور رفتہ رفتہ ترقی کرتے ٹھیکیدار بن گئے۔ اب جیسا کہ ظہیراحمدظہیر بھائی جیسے سمجھدار شخص کی طرح آپ بھی جانتے ہوں گے کہ ہر شخص دوسرے کو اپنے پیشے کے آئینہ میں دیکھتا ہے۔ موچی کی نظر آپ کے جوتوں اور درزی کی آپ کے کپڑوں پہ ہوتی ہے۔ اسی طرح مستری اور ٹھیکیدار حضرات ہر چیز کو "ڈھا" کے دوبارہ بنانے کے ٹھیکے لینے کے خواہشمند رہتے ہیں۔ ویسے کراچی کی پرانی عمارتوں کا ٹھیکہ لگتا ہے کہ آج کل شاعر کے پاس ہی ہے سو انھیں ہر چیز انسان سمیت ڈھا ڈھا کے بنانے کا تازہ ترین شوق ہوا ہوا ہے۔ اب آپ سب بچ بچا کے رہیں۔ خاص کر نیرنگ خیال جیسے لوگوں کو بچ کے رہنا چاہیے کہ احمد بھائی اپنے چند شعروں کے نئے رنگ ان میں شامل کرنا چاہ رہے ہوں گے۔
سہل انگاری کہاں تک، اُٹھ ذرا
زندگی کو اور مت دشوار کر
اللہ اکبر! یہ سراسر نیرنگ خیال پہ ذاتی حملہ ہے کہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ اس شعر کے خلاف جلد ہی ہم دھرنے کا اعلان کریں گے۔ نیرنگ! فکر مت کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ کمال ہے بھئی! یعنی کہ اتنی دیدہ دلیری! اف توبہ!
خوش امیدی کو بنا بانگِ جرس
آرزو کو قافلہ سالار کر
شاعر جدید رجحانات کا علمبردار ہے اور عورت کی حکومت کا سخت ترین حامی ہے سو کہہ رہا ہے کہ آرزو کو لیڈرشپ ملنی چاہیے اور خوش امیدی کو میڈیا میں اہم مقام ملنا چاہیے۔ یہ دراصل استعاراتی شعر ہے اور خوش امیدی اور آرزو کس سیاسی پارٹی میں ہوتی ہیں؟ یہ سیاست سے دلچسپی رکھنے والے محمد وارث اور جاسم محمد جیسے لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔