فرحان محمد خان
محفلین
پہلے جیسا رنگِ بام و در نہیں لگتا مجھے
اب تو اپنا گھر بھی اپنا گھر نہیں لگتا مجھے
لگتی ہو گی تجھ کو بھی میری نظر بدلی ہوئی
تیرا پیکر بھی تیرا پیکر نہیں لگتا مجھے
کیا کہوں اس زلف سے وابستگی کا فائدہ
اب اندھیری رات میں بھی ڈر نہیں لگتا مجھے
مجھ کو زحمی کر نہیں سکتا کوئی دستِ ستم
میں ندی کا چاند ہوں پتھر نہیں لگتا مجھے
سنتِ شاہِؐ امم کا ہوں میں لذت آشنا
خاک سے بہتر کوئی بستر نہیں لگتا مجھے
جب سے دستارِ فضیلت پائی ہے دربار میں
جانے کیوں شانوں پہ اپنا سر نہیں لگتا مجھے
ہیں سخنور نازؔ اچھے اور بھی اس دور میں
کوئی "دانش" کا مگر ہمسر نہیں لگتا مجھے
نازؔ خیالوی
مدیر کی آخری تدوین: