خرم شہزاد خرم
لائبریرین
یہ تحریر میرے بلاگ پر بھی شائع کی گئی ہے
نا پوچھیں لاہور کیسے پہنچے۔بندہ جائے بھی اتنے عرصے بعد اور رشتہ داروں کا گھر بھی یاد نا ہو اور اوپر سے موبائل سروس بھی بند ہو، تو سوچیں پھربندے کا کیا ہو؟ یہی سب کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ ایمن آباد سے ایک دن پہلے میں نے اپنے کزن وحید کو فون کیا کہ کل ہم لاہور آ رہے ہیں۔ ممکن ہے کل موبائل سروس بند ہو اس لیے یاد رکھنا ہم اس وقت لاہور پہنچ جائیں گے اور آپ بھی اسی وقت وہاں پہنچ جانا ۔ لیکن ہماری قسمت میں لاہور کی گلیوں کی سیرلکھی ہوئی تھی اس لیے ہم نے خوب سیر کی۔ جو راستہ ہمیں بتایا گیا تھا ہم اسی راستے پر جا رہے تھے لیکن ہمیں گھر تو دور ،وہ گلی بھی نہیں ملی جہاں گھر تھا۔ پھر ہم نے ایک شخص سے “عثمان گنج ” کا راستہ پوچھا ، اس نے ہمیں بتا دیا اور ہم اس راستے پر چلنا شروع ہو گے۔ کچھ دور جانے کے بعد ہم نے ایک دوسرے شخص سے راستہ پوچھا ، تو اس نے بتایا آپ تو غلط راستے پر جا رہے ہیں “عثمان گنج” اس طرف تو نہیں ہے۔ ہم نے کہا بھائی آپ بتا دیں کہ درست راستہ کون سا ہے۔ جناب کے بتائے ہوئے راستے پر جب ہم چلے تو ایسا لگا ہم درست سمت جا رہے ہیں لیکن وہ راستہ بھی درست نہیں تھا۔ جب کافی دور جانے کے بعد ہمیں ہمارا مطلوبہ راستہ نا ملا ، تو اس بات پر میرا یقین پکا ہو گیا کہ جو کچھ میں نے لاہور والوں کے بارے میں سنا تھا کہ وہ سیدھا راستہ نہیں بتاتے۔ خیر ہر جگہ پر ہر طرح کے انسان ہوتے ہیں۔ ایک شخص جوس تقسیم کر رہا تھا، اس نے ہمیں بھی جوس دیے اور پوچھا کہاں سے آئے ہو۔ ہم نے ان کو تفصیل بتائی جی یہ مسئلہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا بیٹا یہ جہاں اب آپ کھڑے ہیں یہ “حبیب گنج ہے” عثمان گنج تو آپ لوگ پیچھے چھوڑ آئے ہوئے اتنے میں دو بچے آئے، پتہ نہیں وہ بچے ان کے تھے یا محلے دار تھے۔ انکل جی نے ان بچوں کو کہا کہ ان کا مطلوبہ راستہ ان کو سمجھائیں۔ جب میں نے ان کو سمجھایا تو انہوں نے کہا چلے ہم آپ کو وہاں چھوڑ آتے ہیں۔ ہمیں جو راستہ سمجھایا گیا تھا۔ وہاں ایک بڑا سا درخت بھی بتایا گیا تھا اور ان بچوں کے مطابق اس علاقہ میں صرف ایک ہی درخت ہے اور وہ بہت بڑا ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے ، تو ان بچوں نے ایک دوکان دار سے ہمارا بتایا ہوا راستہ پوچھا۔ انہوں نے کہا اس طرح تو پتہ نہیں چلے گا ، کوئی گلی نمبر یا مکان نمبر بھی بتائیں اور ہمیں یہ دونوں یاد ہی نہیں تھے۔ خیر انہوں نے کہا فون کر لیتے ہیں، موبائل کی سروس بند تھی۔ لیکن انہوں نے مشورہ دیا پی ٹی سی ایل پر کال کر لیتے ہیں۔ پھر ہم نے جہلم کال کی اور وہاں سے اعجاز بھائی نے ہمیں تفصیل بتائی یہ ساری تفصیل ، دوکان والے بھائی نے ہی سنی اور پھر ان بچوں کو سمجھا دیا۔
پھر وہ بچے آگے آگے اور ہم ان کے پیچھے پیچھے۔ تقریباَ ہم ایک گھنٹہ گھومتے پھرتے رہے۔ ہم سے زیادہ پرشان تو وہ تو بچے تھے، جو ہمارے لیے راستہ تلاش کر رہے تھے۔ کبھی ایک سے پوچھیں کبھی دوسرے سے پوچھیں اور ہم ہنستے ہنستے لاہور کی گلیوں کی سیرکرتے رہے۔ لوگوں نے گلیاں سجھائی ہوئی تھی، بہت پیارا منظرلگ رہا تھا۔ میں ساتھ ساتھ تصویریں بنا رہا تھا کیا خوبصورت انداز سے لوگوں نے گلیاں سجھائی ہوئی تھیں۔ کسی نے زمین کو سجایا ہوا تھا۔
کسی نے کھلونے ترتیب دیے ہوئے تھے۔ ہر کسی نے اپنے انداز سے کام کیا ہوا تھا۔ خیر اللہ اللہ کر کے ہماری مطلوبہ گلی مل گئی۔ ایک بچے نے کہا بھائی میرے خیال میں
یہی گلی ہے، جس طرح ہمیں دوکان دار نے سمجھایا تھا اس کے مطابق تو یہی گلی ہے۔ میں نے بیگم کی طرف دیکھا تو بیگم نے بھی کہا میرا بھی خیال ہے یہ وہی گلی ہے اور ہم اس گلی میں داخل ہو گے۔ سب سے آخری مکان پر پہنچے تو یہی ہماری منزل تھی۔ بچوں نے اجازت چاہی لیکن میں اور بیگم اسرار کر رہے تھے کہ نہیں بیٹا ایسے نہیں جانے دیں گے ہمارے ساتھ چائے پی کر جائیں۔ لیکن وہ نا مانے اور جانے لگے پھر میں نے درخواست کی اپنی ایک تصویر تو دیتے جائیں ۔ تو دونوں نے میری طرف دیکھا اور میں نے ان کی تصویر لیے لی۔ ان بچوں کی وجہ سے ہم اپنی منزل پر پہنچے اور پہنچتے ہی کزن کی پٹائی شروع کر دی۔ اس بچائے کا بھی قصور نہیں تھا۔ وہ بھی ہماری تلاش کر رکے کے ابھی واپس آیا تھا۔یہ ہوئے لاہور کے آغاز کے تجربات۔ لیکن لاہور پہنچنے سے پہلے کے تجربات ابھی رہتے ہیں
رائیٹ سے لفٹ ، فیضان اور معیز۔
نا پوچھیں لاہور کیسے پہنچے۔بندہ جائے بھی اتنے عرصے بعد اور رشتہ داروں کا گھر بھی یاد نا ہو اور اوپر سے موبائل سروس بھی بند ہو، تو سوچیں پھربندے کا کیا ہو؟ یہی سب کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ ایمن آباد سے ایک دن پہلے میں نے اپنے کزن وحید کو فون کیا کہ کل ہم لاہور آ رہے ہیں۔ ممکن ہے کل موبائل سروس بند ہو اس لیے یاد رکھنا ہم اس وقت لاہور پہنچ جائیں گے اور آپ بھی اسی وقت وہاں پہنچ جانا ۔ لیکن ہماری قسمت میں لاہور کی گلیوں کی سیرلکھی ہوئی تھی اس لیے ہم نے خوب سیر کی۔ جو راستہ ہمیں بتایا گیا تھا ہم اسی راستے پر جا رہے تھے لیکن ہمیں گھر تو دور ،وہ گلی بھی نہیں ملی جہاں گھر تھا۔ پھر ہم نے ایک شخص سے “عثمان گنج ” کا راستہ پوچھا ، اس نے ہمیں بتا دیا اور ہم اس راستے پر چلنا شروع ہو گے۔ کچھ دور جانے کے بعد ہم نے ایک دوسرے شخص سے راستہ پوچھا ، تو اس نے بتایا آپ تو غلط راستے پر جا رہے ہیں “عثمان گنج” اس طرف تو نہیں ہے۔ ہم نے کہا بھائی آپ بتا دیں کہ درست راستہ کون سا ہے۔ جناب کے بتائے ہوئے راستے پر جب ہم چلے تو ایسا لگا ہم درست سمت جا رہے ہیں لیکن وہ راستہ بھی درست نہیں تھا۔ جب کافی دور جانے کے بعد ہمیں ہمارا مطلوبہ راستہ نا ملا ، تو اس بات پر میرا یقین پکا ہو گیا کہ جو کچھ میں نے لاہور والوں کے بارے میں سنا تھا کہ وہ سیدھا راستہ نہیں بتاتے۔ خیر ہر جگہ پر ہر طرح کے انسان ہوتے ہیں۔ ایک شخص جوس تقسیم کر رہا تھا، اس نے ہمیں بھی جوس دیے اور پوچھا کہاں سے آئے ہو۔ ہم نے ان کو تفصیل بتائی جی یہ مسئلہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا بیٹا یہ جہاں اب آپ کھڑے ہیں یہ “حبیب گنج ہے” عثمان گنج تو آپ لوگ پیچھے چھوڑ آئے ہوئے اتنے میں دو بچے آئے، پتہ نہیں وہ بچے ان کے تھے یا محلے دار تھے۔ انکل جی نے ان بچوں کو کہا کہ ان کا مطلوبہ راستہ ان کو سمجھائیں۔ جب میں نے ان کو سمجھایا تو انہوں نے کہا چلے ہم آپ کو وہاں چھوڑ آتے ہیں۔ ہمیں جو راستہ سمجھایا گیا تھا۔ وہاں ایک بڑا سا درخت بھی بتایا گیا تھا اور ان بچوں کے مطابق اس علاقہ میں صرف ایک ہی درخت ہے اور وہ بہت بڑا ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے ، تو ان بچوں نے ایک دوکان دار سے ہمارا بتایا ہوا راستہ پوچھا۔ انہوں نے کہا اس طرح تو پتہ نہیں چلے گا ، کوئی گلی نمبر یا مکان نمبر بھی بتائیں اور ہمیں یہ دونوں یاد ہی نہیں تھے۔ خیر انہوں نے کہا فون کر لیتے ہیں، موبائل کی سروس بند تھی۔ لیکن انہوں نے مشورہ دیا پی ٹی سی ایل پر کال کر لیتے ہیں۔ پھر ہم نے جہلم کال کی اور وہاں سے اعجاز بھائی نے ہمیں تفصیل بتائی یہ ساری تفصیل ، دوکان والے بھائی نے ہی سنی اور پھر ان بچوں کو سمجھا دیا۔
رائیٹ سے لفٹ ، فیضان اور معیز۔