پہچان

نوید ناظم

محفلین
اپنی پہچان اپنے آپ کو پانے اور بچانے کے لیے بہت اہم ہے- اپنے آپ کو پہچاننا ایک مشکل مگر ضروری کام ہے- ضروری اس لیے کہ اس کے بغیر انسان سکون حاصل نہیں کر سکتا اور مشکل اس لیے کہ اس راہ میں یہ خود اپنا حجاب ہے- یہ ایسے ہے جیسے آنکھ کو کہا جائے کہ خود کو دیکھ کر دکھا- خود آشنا ہی خدا آشنا ہو سکتا ہے- جو اپنے من میں ڈوب کر سراغ ہستی پا لے وہ خدا کا بن جاتا ہے اور خدا اس کا بن جاتا ہے، اس سے قطع نظر کہ خدا سب کا خدا ہے- جب انسان اس بات پر غور کرتا ہے کہ آنکھ میں آنسو رکھے گئے ہیں تو اسے اس بات کی پہچان نصیب ہوتی ہے کہ زندگی میں غم ہمیشہ رہے گا۔۔۔ زندگی کو غم سے اور غم کو زندگی سے نکالا نہیں جا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔ ہر خوشی کے باوجود کوئی نہ کوئی دکھ ضرور ہو گا' ہر حاصل کے باوجود کوئی نہ کوئی کمی ضرور ہو گی- اسی طرح لبوں پر مسکراہٹ بھی ضرور آئے گی' بھلے انسان کتنا دکھی کیوں نہ ہو- انسان جب اپنی پہچان کے سفر پر نکلتا ہے تو اسے دوسروں کی پہچان بھی نصیب ہوتی ہے- یہ دیکھتا ہے کہ دریا ہے اور پھر صحرا بھی ہے' پھول ہیں اور کانٹے بھی ہیں' دن ہے اور رات بھی ہے' محبت ہے اور نفرت بھی ہے، غصہ ہے اور رحم بھی ہے۔۔۔۔ ہر شے کے متضاد ایک شے ہے اور ہر جذبے کے مخالف ایک جذبہ ہے۔۔۔ کیا یہ اتفاق ہے؟ یہ کیسا اتفاق ہے جو انسان کی باطنی کائنات سے ظاہری کائنات تک پھیل گیا- اصل میں ایسا نہیں ہے، ہم جو سوچتے ہیں ویسا نہیں ہے- یہاں کچھ بھی اتفاق نہیں۔۔۔ بلکہ ہر شے پلانڈ بلکہ ویل پلاںڈ ہے- خالق نے خود کہا کہ اُس نے کچھ بھی باطل پیدا نہیں فرمایا- قدرت سے قادر کو پہچاننا' پہچان کا فیضان ہے- جس انسان کو اپنی پہچان حاصل نہ ہو اس کے لیے ہر واقعہ معمولی اور ہر بات بے معنی ہوتی ہے- وہ ایسا ہے جیسے کوئی رنگوں میں کھیل رہا ہو مگر اندھا ہو- جب کہ پہچان والا شخص اور ہی شخص ہوتا ہے- وہ معمولی بات سے غیر معمولی نتائج نکال لیتا ہے- وہ زندگی سے نئے زاویے اور ہر زاویوں کے اندر سے پھر زندگی نکالتا ہے- پہچان ' انسان کی وہ اڑان ہے جو اسے وہاں تک لے جاتی ہے جہاں تک پر بھی لے کر نہیں جا سکتے- یہاں ایک بات ضروری یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنی پہچان پائی ان لوگوں نے بتایا کہ اپنی پہچان' اپنے آپ نہیں ہوسکتی' آنکھ خود کو دیکھ تو سکتی ہے' مگر آئنے کے ذریعہ سے- اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی انسان کی طرف رجوع' خود اپنی طرف رجوع ہے' اور اپنی طرف رجوع اصل میں خدا کی طرف رجوع ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ سفر پہچان کا سفر-
 
Top