دھاگے کا عنوان دیکھ تو خدا کی قسم میرے پیروں سے نکل گئی ۔ میں نے کہا کہ ابھی تو کل ہی بات ہوئی تھی محب سے ۔۔ یہ اچانک کیسے ہوگیا ۔ اچھا خاصا پٹر پٹر بات کرتے ہوئے رخصت کیا تھا ۔۔۔ کیا معلوم کہ اب ایسی گھگھی بند جائے گی ۔
مگر جیسے جیسے قیصرانی کے دھاگے کو آگے پڑھتا چلا گیا ۔۔ ویسے ویسے ہی یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ ۔۔۔۔ میرے پیارے بھیا ۔۔۔ وہ والے پیارے بھیا نہیں ۔۔۔ بلکہ “یہ“ والے ہیں ۔ بس کیا تھا سجدہ شکر بجا لایا ۔۔ اور وہ بھی اتنا زوردار کہ ابھی تک پیشانی پر ایک گومڑا بنا ہوا ہے ۔ مگر محب سلامت رہے تو ایسے سینکڑوں گومڑے پیشانی پر قبول ہیں اگر جگہ میسر رہے ۔
خیر اب سانس میں سانس واپس آئی ہے تو میں بھی “پیارے بھائی “ محب کو ان کے اُن 3 ہزار خطوط کی مبارک تہہ دل سے دیتا ہوں جو ان کے نامہ اعمال میں لکھے جا چکے ہیں ۔
اللہ کرے آپ ایسے ہی لکھتے رہیں ۔
آمین