عدیم ہاشمی پیار وہ بھی تو کرے، وہ بھی تو چاہے گاہے

شیزان

لائبریرین
پیار وہ بھی تو کرے، وہ بھی تو چاہے گاہے
آہ وہ بھی تو بھرے، وہ بھی کراہے گاہے

عدل تھوڑا سا تو اے عادلِ وعدہ شکناں
عہد وہ روز کرے اور نبھاہے گاہے

لے حوالے ترے کر دی ہے تعلق کی کلید
یاد کر روز اسے، مل اسے گاہے گاہے

نرم سا نور بھی ہو، گرم سی تاریکی میں
آ شبِ ہجر میں بھی صورتِ ماہے گاہے

پیار دریا ہے جو دونوں ہی طرف بہتا ہے
میں تو چاہوں اسے، وہ بھی مجھے چاہے گاہے

اتنی تکلیف بھی کیا ، یہ بھی تکلف کیسا
جو ہمیشہ نہیں ملتے ہو تو کاہے گاہے

حسن کے در پہ سدا دل کو گداگر دیکھا
بر سر تخت انا صورتَ شاہے گاہے

حسنِ دنیا بھی فسوں خیز ہے اس پر بھی نظر
جانب، کوچۂ جاناں بھی نگاہے گاہے

ہے بھروسہ تو چلو آؤ یہ وعدہ کر لیں
مر ہی جائے جو کسی اور کو چاہے گاہے

نہ سہی تو نہ سہی وصل ہمیشہ کا عدیم
نہ ملے تو نہ ملے روز، پہ گاہے گاہے
 
Top