محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
پیامِ مشرِق سے ایک غزل
(علامہ اقبال)
ترجمہ : محمد خلیل الرحمٰن
فریبِ کشمکشِ عقل دیدنی ٹھہرا
ہے میرِ قافلہ ، پر شوق رہزنی ٹھہرا
حیات و زیست کا کیا پوچھتے ہو دنیا میں
پگھلتی زیست ہے اور موت جانکنی ٹھہرا
سرِ مزار ذرا رُک کے سُن ہماری بات
سکوت کرتے ہیں پر حرف گفتنی ٹھہرا
عرب کے دشت میں پھر خیمہ زن ہو اب، کہ عجم
شرابِ تلخ تو جامِ شکستنی ٹھہرا
’’نہ شیخِ شہر، نہ شاعر، نہ خرقہ پوش اقبال‘‘
فقیر راہ نشیں، جِس کا دل غنی ٹھہرا
(علامہ اقبال)
ترجمہ : محمد خلیل الرحمٰن
فریبِ کشمکشِ عقل دیدنی ٹھہرا
ہے میرِ قافلہ ، پر شوق رہزنی ٹھہرا
حیات و زیست کا کیا پوچھتے ہو دنیا میں
پگھلتی زیست ہے اور موت جانکنی ٹھہرا
سرِ مزار ذرا رُک کے سُن ہماری بات
سکوت کرتے ہیں پر حرف گفتنی ٹھہرا
عرب کے دشت میں پھر خیمہ زن ہو اب، کہ عجم
شرابِ تلخ تو جامِ شکستنی ٹھہرا
’’نہ شیخِ شہر، نہ شاعر، نہ خرقہ پوش اقبال‘‘
فقیر راہ نشیں، جِس کا دل غنی ٹھہرا