پیامِ مشرِق سے ایک غزل کا ترجمہ

پیامِ مشرِق سے ایک غزل
(علامہ اقبال)
ترجمہ : محمد خلیل الرحمٰن


فریبِ کشمکشِ عقل دیدنی ٹھہرا
ہے میرِ قافلہ ، پر شوق رہزنی ٹھہرا


حیات و زیست کا کیا پوچھتے ہو دنیا میں
پگھلتی زیست ہے اور موت جانکنی ٹھہرا


سرِ مزار ذرا رُک کے سُن ہماری بات
سکوت کرتے ہیں پر حرف گفتنی ٹھہرا


عرب کے دشت میں پھر خیمہ زن ہو اب، کہ عجم
شرابِ تلخ تو جامِ شکستنی ٹھہرا


’’نہ شیخِ شہر، نہ شاعر، نہ خرقہ پوش اقبال‘‘
فقیر راہ نشیں، جِس کا دل غنی ٹھہرا
 
پیامِ مشرِق سے ایک غزل
(علامہ اقبال)
فریبِ کشمکشِ عقل دیدنی دارد
کہ میرِ قافلہ و ذوقِ رہزنی دارد

ز مرگ و زیست چہ پرسی دریں رباطِ کہن
کہ زیست کاہشِ جاں، مرگ جانکنی دارد

سرِ مزارِ شہیداں یکے عناں درکش
کہ بے زبانیء ما حرفِ گفتنی دارد

دگر بدشتِ عرب خیمہ زن کہ بزمِ عجم
مے گذشتہ و جام شکستنی دارد

نہ شیخِ شہر، نہ شاعر، نہ خرقہ پوش اقبال
فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد
 
کیا کہنے جناب :)
کیا خوب ترجمہ کی لطف آ گیاپڑھ کر
ماشاءاللہ قلم کی جولانی زوروں پر ہے
اللہ اسے یوں ہی قائم دائم رکھے آمین
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہ
بہت خوب ترجمہ کیا ہے محترم بھائی
فریبِ کشمکشِ عقل دیدنی ٹھہرا
ہے میرِ قافلہ ، پر شوق رہزنی ٹھہرا
 

تلمیذ

لائبریرین
واہ جناب، کیا بات ہے۔ نہایت عمدہ کاوش ہے جو دونوں زبانوں پر آپ کی خاطر خواہ دسترس کی غماز ہے۔
جزاک اللہ!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
شاندار ہے۔واہ۔واہ۔خلیل بھائی
مگر حسب نوعیت ِدھاگہ ۔ایک ہلللل کی سی گزارش ( اور وہ بھی مؤدّبانہ) ۔۔۔حیات کے ساتھ موت اور زیست کے ساتھ مرگ کردیں اور ٹھہرا کی مناسبت سے کچھ ترتیب اور اچھی طرح بٹھا دیں ۔
بہت بہت داد و تحسین۔
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب خلیل۔ مجھے بھی اسی شعر کا ترجمہ ہلکا لگا، کاہشِ جاں کو کچھ اور کہا جائے۔ پگھلتی زیست میں بات نہیں بنی۔
حیات و زیست کا کیا پوچھتے ہو دنیا میں
پگھلتی زیست ہے اور موت جانکنی ٹھہرا
 

جیہ

لائبریرین
بہت خوب۔ میں سمجھی کہ یہ علامہ اقبال کا کلام پوسٹ کیا ہے۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ فارسی کلام کا ترجمہ ہے ۔ اور کیا خوب ترجمہ ہے ۔ ماشاء اللہ

اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس میں ایک فقرہ missing ہے ۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔ روح اقبال سے معذرت کے ساتھ :)
 
Top