الف نظامی
لائبریرین
پیام مشرق ،جامع تعارف:
پیام مشرق , علامہ اقبال کا تیسرا فارسی مجموعہ کلام ہے۔ یہ پہلی بار1923ع میں شائع ہوا۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر، اب تک اس کے بیسیوں ایڈیشن اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ اس میں علامہ اقبال کا تحریر کردہ مفصل اردو دیباچہ بھی شامل ہے
سبب تالیف:
پیام مشرق کے دیباچے میں علامہ اقبال نے بڑی تفصیل سے اس کا سببِ تالیف بیان کیا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کتاب جرمنی کے مشہور شاعر گوئٹے کے مجموعہ کلام "دیوانِ مغرب" کے جواب میں تخلیق ہوئی۔ گوئٹے ایک عظیم دانشور اور بلند پایہ شاعر تھا۔ اسے جدید مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن کا احساس تھا۔ اس کی حساس روح مغربی دنیا کی بے معنی ہلچل اور ہنگامہ خیزی سے بیزار تھی۔ وہ مشرق کی پر سکون فضاوں میں بڑی دلچسپی محسوس کرتا تھا۔ وہ فارسی غزل کے عظیم شاعر خواجہ حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری سے انتہائی متاثر تھا۔ چناچہ اس نے دیوانِ حافظ کی شعوری تقلید کرتے ہوئے ، یورپی شاعری میں، مشرقی اندازِ فکر متعارف کروانے کی کوشش کی اور دیوان مغرب کے نام سے اپنا دیوان شائع کیا۔ یورپی چاعری میں یہ ایک مختلف آواز تھی ، جو منفرد افکار کی حامل بھی تھی اور بے حد توانا بھی۔
علامہ اقبال ، خواجہ حافظ کے اسلوبِ کلام سے بھی متاثر تھے اور گوئٹے کے فکر وفن سے بھی ۔ انہیں گوئٹے کے طرزِ احساس میں اپنائیت محسوس ہوئی۔ چناچہ انہوں نے ایک سو سال بعد "پیام مشرق" کے نام سے اپنا فکر انگیز مجموعہ کلام شائع کیا اور اسے مشرق دنیا کی طرف سے جہانِ مغرب کو ایک تحفہ قرار دیا۔
انتساب:
پیام مشرق کا زمانہ تالیف 1918 سے 1922 تک ہے۔ اس عرصے میں افغانستان کے امیر امان اللہ خاں نے انگریزوں کے خلاف اعلانِ جنگ کرکے ایک تاریخی قدم اٹھایا جس کے نتیجے میں برطانیہ نے افغانستان کو آزاد ملک تسلیم کر لیا۔
اس زبردست کامیابی پر امیر امان اللہ خاں پوری اسلامی دنیا کا قومی ہیرو بن گیا اور ملت اسلامی نے اس کی ذات سے بہت سے توقعات وابستہ کرلیں۔ علامہ اقبال بھی اس کے جذبہ جہاد اور ولولہ ایمانی سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ اسے دنیا بھر کے مسلمانوں کی حریت فکر اور سیاسی و سماجی سربلندی کی علامت سمجھتے تھے۔ اس پسِ منظر میں انہوں نے اپنے مجموعہ کلام کا انتساب امیر امان اللہ خاں والی افغانستان کے نام کیا۔ اس کتاب کے تمہیدی اشعار میں علامہ اقبال نے انہیں بہت خراجِ تحسین پیش کیا اور خلوص و محبت سے لبریز نصیحتیں کیں۔ امیر امان اللہ خان ان توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔
ذیلی عنوانات:
علامہ اقبال نے پیام مشرق کی پانچ ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا ہے ، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
1- لالہ طور
2۔ افکار
3۔می باقی
4۔ نقشِ فرنگ
5۔خُردہ
لالہ طور:
پہلے حصے میں ایک سو تریسٹھ رباعیات ہیں۔ ان رباعیات میں انسانی زندگی کے باطنی پہلو اُجاگر کیے گئے ہیں۔ بیشتر موضوعات حکیمانہ اور فلسفیانہ ہیں۔ خودی ، عشق ، عظمتِ آدم ، زندگی ، روح ، مادہ ، کائنات ، حیات و موت ، مسئلئہ جبر و قدر اور وحدت الوجود کے مسائل کو بڑے لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔
افکار:
کتاب کا یہ دوسرا حصہ سب سے زیادہ ضخیم ہے۔ اس میں اکاون نظمیں ہیں۔ یہ نظمیں اپنے موضوعات اور اسالیب کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ کچھ نظموں کا تعلق مناظرِ فطرت کے بیان سے ہے اور کچھ منظومات اقبال کے مخصوص فلسفہ حیات و کائنات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ دو نظمیں گوئٹے کے نام منسوب کی گئی ہیں۔ بیشتر نظموں میں تمثیلی اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے جو مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی و معنوی کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔
می باقی:
یہ پیام مشرق کا تیسرا حصہ ہے اور پنتالیس غزلوں پر مشتمل ہے۔ ان غزلوں میں علامہ اقبال کا فکر رسا اور قدرتِ کلام ، اوجِ کمال پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ روائتی غزلیں نہیں ہیں بلکہ جدید موضوعات اور عصری مسائل کی آئینہ دار ہیں۔ زبان و بیان کے اعتبار سے انہیں سلیس اور رواں غزلیں کہا جا سکتا ہے۔ اور یہ فارسی شاعری کے مشہور اسلوبِ عراقی کی نمائندہ ہیں۔ اقبال کے افکار اپنی تمام تر وسعت اور گہرائی کے ساتھ ان میں موجود ہیں۔ ان میں فلسفہ و حکمت بھی ہے اور تصوف و عرفان بھی، سعی و عمل کا درس بھی دیا گیا ہے اور سخت کوشی اور خود شناسی کو بھی موضوعِ سخن بنایا گیا ہے۔ تہذیب حاضر اور مغربی تمدن کی سطحیت سے بھی آگاہ کیا گیا ہے اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تمام مسائل کا حل بھی قرار دیا گیا ہے ۔ ان غزلوں کی سب سے بڑی خوبی ، ان کی رجائیت اور امید پسندی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اقبال نے فارسی غزل کو منفرد معنویت عطا کی اور اسے نئے شعور اور جدید طرزِ احساس سے روشناس کرایا ہے۔
نقشِ فرنگ:
پیام مشرق کے چوتھے حصے کی نظموں میں مغربی تہذیب و ثقافت اور اقوامِ مغرب کے فلسفہ و فکر کو متعارف کروا کر ، فرنگی تمدن کے کمزور پہلووں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ علامہ اقبال نے مغربی دانشوروں کے افکار پر جا بجا سخت گرفت کی ہے اور اس کے مقابلے میں مشرقی حکمت و فلسفہ کے حوالے سے اپنی آراء بیان کی ہیں۔ ان منظومات میں جن مغربی فلسفیوں کے نظریات کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے ، ان میں شوپن ہار ، نٹشے ، آئن سٹائن ، بائرن ، ہیگل ، برگساں اور ٹالسٹائی قابلِ ذکر ہیں۔ انہی نظموں میں سوشلسٹ انقلاب کے پس منظر میں مزدور اور سرمایہ دار کے موضوعات پر بھی دادِ سخن دی گئی ہے۔ علامہ اقبال کو اس ناکام ہو جانے والے انقلاب کے جس پہلو نے بے حد متاثر کیا تھا ، وہ اس کا نظریہ مساوات تھا۔ دوسری طرف یورپ کی اندھی استعماری قوتیں تھیں ، جن کے جبر و استبداد سے وہ شدید نفرت کرتے تھے۔
خردہ:
پیام مشرق کے پانچویں اور آخری حصے کا نام خُردہ ہے ۔ اس میں مختلف عنوانات کے تحت تیئیس متفرق اشعار شامل ہیں۔ ان اشعار کے مضامین میں نُدرت اور فکر و خیال کی تازگی اور گہرائی کا عنصر کار فرما ہے۔
دیگر زبانوں میں پیام مشرق کے تراجم:
علامہ اقبال کو اپنی اس غیر معمولی تخلیق کی اہمیت اور افادیت کا بخوبی احساس تھا۔ پیام مشرق کی اشاعت سے پہلے اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:
"مجھے یقین ہے کہ دیوان (پیام مشرق) کا ترجمہ بھی ضرور ہوگا۔ کیونکہ یورپ کی دماغی زندگی کے ہر پہلو پر اس میں نظر ڈالی گئی ہے اور مغرب کے سرد خیالات و افکار میں کسی قدر حرارت ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے"
علامہ اقبال کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور اس وقت تک پانچ بین الاقوامی زبانوں میں اس کے تراجم ہوچکے ہیں۔ کئی اہم مغربی مفکرین نے اس کتاب پر شاندار تبصرے لکھے ہیں اور علامہ اقبال کے فکر و فن کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
از پروفیسر ڈاکٹر غلام معین الدین نظامی (گولڈ میڈلسٹ، پنجاب یونیورسٹی ریکارڈ ہولڈر ) ، استاد شعبہ فارسی پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج
پیام مشرق , علامہ اقبال کا تیسرا فارسی مجموعہ کلام ہے۔ یہ پہلی بار1923ع میں شائع ہوا۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر، اب تک اس کے بیسیوں ایڈیشن اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ اس میں علامہ اقبال کا تحریر کردہ مفصل اردو دیباچہ بھی شامل ہے
سبب تالیف:
پیام مشرق کے دیباچے میں علامہ اقبال نے بڑی تفصیل سے اس کا سببِ تالیف بیان کیا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کتاب جرمنی کے مشہور شاعر گوئٹے کے مجموعہ کلام "دیوانِ مغرب" کے جواب میں تخلیق ہوئی۔ گوئٹے ایک عظیم دانشور اور بلند پایہ شاعر تھا۔ اسے جدید مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن کا احساس تھا۔ اس کی حساس روح مغربی دنیا کی بے معنی ہلچل اور ہنگامہ خیزی سے بیزار تھی۔ وہ مشرق کی پر سکون فضاوں میں بڑی دلچسپی محسوس کرتا تھا۔ وہ فارسی غزل کے عظیم شاعر خواجہ حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری سے انتہائی متاثر تھا۔ چناچہ اس نے دیوانِ حافظ کی شعوری تقلید کرتے ہوئے ، یورپی شاعری میں، مشرقی اندازِ فکر متعارف کروانے کی کوشش کی اور دیوان مغرب کے نام سے اپنا دیوان شائع کیا۔ یورپی چاعری میں یہ ایک مختلف آواز تھی ، جو منفرد افکار کی حامل بھی تھی اور بے حد توانا بھی۔
علامہ اقبال ، خواجہ حافظ کے اسلوبِ کلام سے بھی متاثر تھے اور گوئٹے کے فکر وفن سے بھی ۔ انہیں گوئٹے کے طرزِ احساس میں اپنائیت محسوس ہوئی۔ چناچہ انہوں نے ایک سو سال بعد "پیام مشرق" کے نام سے اپنا فکر انگیز مجموعہ کلام شائع کیا اور اسے مشرق دنیا کی طرف سے جہانِ مغرب کو ایک تحفہ قرار دیا۔
انتساب:
پیام مشرق کا زمانہ تالیف 1918 سے 1922 تک ہے۔ اس عرصے میں افغانستان کے امیر امان اللہ خاں نے انگریزوں کے خلاف اعلانِ جنگ کرکے ایک تاریخی قدم اٹھایا جس کے نتیجے میں برطانیہ نے افغانستان کو آزاد ملک تسلیم کر لیا۔
اس زبردست کامیابی پر امیر امان اللہ خاں پوری اسلامی دنیا کا قومی ہیرو بن گیا اور ملت اسلامی نے اس کی ذات سے بہت سے توقعات وابستہ کرلیں۔ علامہ اقبال بھی اس کے جذبہ جہاد اور ولولہ ایمانی سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ اسے دنیا بھر کے مسلمانوں کی حریت فکر اور سیاسی و سماجی سربلندی کی علامت سمجھتے تھے۔ اس پسِ منظر میں انہوں نے اپنے مجموعہ کلام کا انتساب امیر امان اللہ خاں والی افغانستان کے نام کیا۔ اس کتاب کے تمہیدی اشعار میں علامہ اقبال نے انہیں بہت خراجِ تحسین پیش کیا اور خلوص و محبت سے لبریز نصیحتیں کیں۔ امیر امان اللہ خان ان توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔
ذیلی عنوانات:
علامہ اقبال نے پیام مشرق کی پانچ ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا ہے ، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
1- لالہ طور
2۔ افکار
3۔می باقی
4۔ نقشِ فرنگ
5۔خُردہ
لالہ طور:
پہلے حصے میں ایک سو تریسٹھ رباعیات ہیں۔ ان رباعیات میں انسانی زندگی کے باطنی پہلو اُجاگر کیے گئے ہیں۔ بیشتر موضوعات حکیمانہ اور فلسفیانہ ہیں۔ خودی ، عشق ، عظمتِ آدم ، زندگی ، روح ، مادہ ، کائنات ، حیات و موت ، مسئلئہ جبر و قدر اور وحدت الوجود کے مسائل کو بڑے لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔
افکار:
کتاب کا یہ دوسرا حصہ سب سے زیادہ ضخیم ہے۔ اس میں اکاون نظمیں ہیں۔ یہ نظمیں اپنے موضوعات اور اسالیب کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ کچھ نظموں کا تعلق مناظرِ فطرت کے بیان سے ہے اور کچھ منظومات اقبال کے مخصوص فلسفہ حیات و کائنات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ دو نظمیں گوئٹے کے نام منسوب کی گئی ہیں۔ بیشتر نظموں میں تمثیلی اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے جو مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی و معنوی کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔
می باقی:
یہ پیام مشرق کا تیسرا حصہ ہے اور پنتالیس غزلوں پر مشتمل ہے۔ ان غزلوں میں علامہ اقبال کا فکر رسا اور قدرتِ کلام ، اوجِ کمال پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ روائتی غزلیں نہیں ہیں بلکہ جدید موضوعات اور عصری مسائل کی آئینہ دار ہیں۔ زبان و بیان کے اعتبار سے انہیں سلیس اور رواں غزلیں کہا جا سکتا ہے۔ اور یہ فارسی شاعری کے مشہور اسلوبِ عراقی کی نمائندہ ہیں۔ اقبال کے افکار اپنی تمام تر وسعت اور گہرائی کے ساتھ ان میں موجود ہیں۔ ان میں فلسفہ و حکمت بھی ہے اور تصوف و عرفان بھی، سعی و عمل کا درس بھی دیا گیا ہے اور سخت کوشی اور خود شناسی کو بھی موضوعِ سخن بنایا گیا ہے۔ تہذیب حاضر اور مغربی تمدن کی سطحیت سے بھی آگاہ کیا گیا ہے اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تمام مسائل کا حل بھی قرار دیا گیا ہے ۔ ان غزلوں کی سب سے بڑی خوبی ، ان کی رجائیت اور امید پسندی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اقبال نے فارسی غزل کو منفرد معنویت عطا کی اور اسے نئے شعور اور جدید طرزِ احساس سے روشناس کرایا ہے۔
نقشِ فرنگ:
پیام مشرق کے چوتھے حصے کی نظموں میں مغربی تہذیب و ثقافت اور اقوامِ مغرب کے فلسفہ و فکر کو متعارف کروا کر ، فرنگی تمدن کے کمزور پہلووں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ علامہ اقبال نے مغربی دانشوروں کے افکار پر جا بجا سخت گرفت کی ہے اور اس کے مقابلے میں مشرقی حکمت و فلسفہ کے حوالے سے اپنی آراء بیان کی ہیں۔ ان منظومات میں جن مغربی فلسفیوں کے نظریات کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے ، ان میں شوپن ہار ، نٹشے ، آئن سٹائن ، بائرن ، ہیگل ، برگساں اور ٹالسٹائی قابلِ ذکر ہیں۔ انہی نظموں میں سوشلسٹ انقلاب کے پس منظر میں مزدور اور سرمایہ دار کے موضوعات پر بھی دادِ سخن دی گئی ہے۔ علامہ اقبال کو اس ناکام ہو جانے والے انقلاب کے جس پہلو نے بے حد متاثر کیا تھا ، وہ اس کا نظریہ مساوات تھا۔ دوسری طرف یورپ کی اندھی استعماری قوتیں تھیں ، جن کے جبر و استبداد سے وہ شدید نفرت کرتے تھے۔
خردہ:
پیام مشرق کے پانچویں اور آخری حصے کا نام خُردہ ہے ۔ اس میں مختلف عنوانات کے تحت تیئیس متفرق اشعار شامل ہیں۔ ان اشعار کے مضامین میں نُدرت اور فکر و خیال کی تازگی اور گہرائی کا عنصر کار فرما ہے۔
دیگر زبانوں میں پیام مشرق کے تراجم:
علامہ اقبال کو اپنی اس غیر معمولی تخلیق کی اہمیت اور افادیت کا بخوبی احساس تھا۔ پیام مشرق کی اشاعت سے پہلے اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:
"مجھے یقین ہے کہ دیوان (پیام مشرق) کا ترجمہ بھی ضرور ہوگا۔ کیونکہ یورپ کی دماغی زندگی کے ہر پہلو پر اس میں نظر ڈالی گئی ہے اور مغرب کے سرد خیالات و افکار میں کسی قدر حرارت ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے"
علامہ اقبال کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور اس وقت تک پانچ بین الاقوامی زبانوں میں اس کے تراجم ہوچکے ہیں۔ کئی اہم مغربی مفکرین نے اس کتاب پر شاندار تبصرے لکھے ہیں اور علامہ اقبال کے فکر و فن کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
از پروفیسر ڈاکٹر غلام معین الدین نظامی (گولڈ میڈلسٹ، پنجاب یونیورسٹی ریکارڈ ہولڈر ) ، استاد شعبہ فارسی پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج