غدیر زھرا
لائبریرین
پیا عشق اساڈی آن سنگت
گئی شد مد زیر زبر دی بہت
عشق سے ہماری اس طرح دوستی ہوئی کہ باقی سب پڑھا لکھا بھول گیا۔
سب وسرے علم علوم اساں
کل بھل گئے رسم رسوم اساں
ہے باقی درد دی دھوم اساں
بئی برہوں یاد رہیو سے گت
تمام علوم و فنون بھول گئے، رسم و رواج یاد نہ رہےصرف درد و سوز کی لذت یاد رہی اور نغمۂ محبت یاد رہا
انہاں جھوٹیاں غیراں ویریاں توں
انہاں کوڑیاں کھیڑیاں بھیڑیاں توں
انہاں کوجھیاں گیڑیاں پیڑیاں توں
ہر ویلھے یار گھنم ڈت پت
میرا محبوب ہر وقت میرے بد باطن،منفی مزاج اور فتنہ پرداز مخالفین سے میری صفائی لیتا رہتا ہے۔
کر صبر تے شکر شکایت تے
رکھ آس امید عنایت تے
پے فخر دی فقر ولایت تے
ڈینہہ راتیں دلڑی ڈیوم مت
شکایت نہ کرو،صبر شکر کر ،اس کی عنایتوں پر نظر رکھ ،اور اپنے مرشد حضر ت فخر جہان کے فقر و ولایت کو سامنے رکھ دن رات میرا دل مجھے یہی تلقین کر تا رہتا ہے۔
مٹھی گلڑیں شہر وکھوہیں دی
تتی ملک ملامت ڈوہیں دی
سنجی روہی راوے روہیں دی
ڈتی خلعت یار بروچل جت
مجھے شہر بھر میں لگائی جانے والی تہمتوں نے اور ملامتوں نے برباد کر دیا مجھے میرے شتر بان محبوب نے صرف روہی کے ویرانے عطا کیے ہیں۔
نت کھانواں ڈکھڑیں توں مک لت
ہاں آکھن ! نیڑا لیسیں وت
کڈیں ووئے توئے تے کڈیں ہا ہت
ڈے در کے خوب نپیڑن ست
میں ہمیشہ دکھ درد کی زد میں ہوں، وہ مجھ سے پوچھتے ہیں عشق کرو گے، کبھی وہ میرے ساتھ تلخی سے پیش آتے ہیں
اور کبھی آزما ئشوں میں مبتلا کر کے میرا خون نچوڑ لیتے ہیں۔
سٹ کلہڑی یار فرید گیا
ایہو حال نمانی نال تھیا
فریاد کراں کر یاد پیا
ہتھ مل مل بیٹھی روواں رت
مجھے اکیلا چھو ڑ ’’ فرید ‘‘ میرا دوست چلا گیا اب تو میرا یہ حال ہے کہ اسے یاد کر کر کے فریاد کرتی ہوں اور ہاتھ مل مل کے خون کے آنسو بہاتی ہوں۔
(خواجہ غلام فرید)
گئی شد مد زیر زبر دی بہت
عشق سے ہماری اس طرح دوستی ہوئی کہ باقی سب پڑھا لکھا بھول گیا۔
سب وسرے علم علوم اساں
کل بھل گئے رسم رسوم اساں
ہے باقی درد دی دھوم اساں
بئی برہوں یاد رہیو سے گت
تمام علوم و فنون بھول گئے، رسم و رواج یاد نہ رہےصرف درد و سوز کی لذت یاد رہی اور نغمۂ محبت یاد رہا
انہاں جھوٹیاں غیراں ویریاں توں
انہاں کوڑیاں کھیڑیاں بھیڑیاں توں
انہاں کوجھیاں گیڑیاں پیڑیاں توں
ہر ویلھے یار گھنم ڈت پت
میرا محبوب ہر وقت میرے بد باطن،منفی مزاج اور فتنہ پرداز مخالفین سے میری صفائی لیتا رہتا ہے۔
کر صبر تے شکر شکایت تے
رکھ آس امید عنایت تے
پے فخر دی فقر ولایت تے
ڈینہہ راتیں دلڑی ڈیوم مت
شکایت نہ کرو،صبر شکر کر ،اس کی عنایتوں پر نظر رکھ ،اور اپنے مرشد حضر ت فخر جہان کے فقر و ولایت کو سامنے رکھ دن رات میرا دل مجھے یہی تلقین کر تا رہتا ہے۔
مٹھی گلڑیں شہر وکھوہیں دی
تتی ملک ملامت ڈوہیں دی
سنجی روہی راوے روہیں دی
ڈتی خلعت یار بروچل جت
مجھے شہر بھر میں لگائی جانے والی تہمتوں نے اور ملامتوں نے برباد کر دیا مجھے میرے شتر بان محبوب نے صرف روہی کے ویرانے عطا کیے ہیں۔
نت کھانواں ڈکھڑیں توں مک لت
ہاں آکھن ! نیڑا لیسیں وت
کڈیں ووئے توئے تے کڈیں ہا ہت
ڈے در کے خوب نپیڑن ست
میں ہمیشہ دکھ درد کی زد میں ہوں، وہ مجھ سے پوچھتے ہیں عشق کرو گے، کبھی وہ میرے ساتھ تلخی سے پیش آتے ہیں
اور کبھی آزما ئشوں میں مبتلا کر کے میرا خون نچوڑ لیتے ہیں۔
سٹ کلہڑی یار فرید گیا
ایہو حال نمانی نال تھیا
فریاد کراں کر یاد پیا
ہتھ مل مل بیٹھی روواں رت
مجھے اکیلا چھو ڑ ’’ فرید ‘‘ میرا دوست چلا گیا اب تو میرا یہ حال ہے کہ اسے یاد کر کر کے فریاد کرتی ہوں اور ہاتھ مل مل کے خون کے آنسو بہاتی ہوں۔
(خواجہ غلام فرید)
آخری تدوین: