سید رافع
محفلین
قسط 1
رات کے دس بج رہے تھے۔ پیرس کے ایفل ٹاور کے سامنے شب جوان ہورہی تھی۔ ستمبر کی اس خوبصورت رات ہونے والی ہلکی پھوار نے سبز گھاس کو اور بھی خوبصورت بنا دیا تھا۔ ساری دنیا سے آئے ہوئے سیاح اس حسین رات کے ہر ہر پل سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ٹاور کے اردگرد رنگ برنگی روشنیوں میں ٹہلتے، محبت کرنے والے جوڑے ، ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اپنی یادوں کو پرلطف بنانے کے لیے ایک دوسرے کو ہلکی ہلکی مسکراہٹ کے تحفے دے رہے تھے۔
ایک آخری ہچکولا لے کرمیٹرو ٹرین پیرس کے خوبصورت پاسی اسٹیشن پر رکتی ہے۔فہد اس ٹرین میں ایک جھمگٹےکو توڑ کرٹرین کے گیٹ سے بمشکل باہر نکلتا ہے۔ فہد عرصے سے پیرس کے دریائے سین کے کنارے ایک اپارٹمنٹ میں اپنی بیوی فرح اور دو بچوں ایمن اور احمد کے ساتھ مقیم تھا۔ وہ لاہور سے پیرس دس سال قبل آیا تھا اور فیشن ڈزائن کے بزنس سے وابستہ تھا۔فہد نے پاسی اسٹیشن سے باہر آتے ہی اپنے اپارٹمنٹ کی طرف قدم بڑھائے جو ذرا ہی فاصلے پر دریا کے مشرقی کنارے پربنا ہوا تھا۔ فیشن ڈائزئن کے شعبے سے وابستہ ہونے کے سبب وہ زندگی کے ہر ہر پہلو میں خوبصورتی تلاش کر تا تھا اور یہی وجہ بنی کہ دریاکے کنارے اس حسین جگہ کا انتخاب کیا گیا۔
فہد پیزا اور کولڈ درنک لے کر اپارٹمنٹ کی گیلری میں آ چکا تھا۔ بھیگی ہوئی اس خوبصورت رات میں دریائے سین کا شور اور دور دکھائی دینے والے ایفل ٹاور کی روشنیاں ایک سحر سا طاری کیے دیتی تھیں۔ فرح بچوں سمیت لاہور گئی ہوئی تھی تاکہ اسکے بچے اس سیاحتی مقام پر کرونا وائرس کے خطرے سے بچ سکیں۔فہد نے پیزا کا ایک اور لقمہ لیتے ہوئے قریب ہی پڑےایم پی تھری پلیئر پرپلے کا بٹن دبایا۔ فضا میں کوک اسٹوڈیو میں ریکارڈ کیے گئے سجاد علی کے گانے 'تم ناراض ہو' کی دھن فضا میں رس گھولنے لگی۔اب وہ ٹیبل پر پاوں رکھے آرام سے ایک آرام دہ کرسی پر نیم لیٹا ہوا سا تھا۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ کچن کاونٹر پر رکھا موبائل گونج اٹھا۔
"ہیلو!" یہ گجرانوالہ سے فرح کی دوست مہوش کا فون تھا۔ پاکستان پیرس سے تین گھنٹے آگے ہے۔ اس وقت پیرس میں ساڑھے گیارہ اور پاکستان میں رات کا ڈیڑھ بج چکا تھا۔ فہد حیران تھا کہ رات کے اس پہرفرح کی بچپن کی دوست اسکو کیونکر کال کر سکتی ہے۔ (جاری ہے۔۔۔)
رات کے دس بج رہے تھے۔ پیرس کے ایفل ٹاور کے سامنے شب جوان ہورہی تھی۔ ستمبر کی اس خوبصورت رات ہونے والی ہلکی پھوار نے سبز گھاس کو اور بھی خوبصورت بنا دیا تھا۔ ساری دنیا سے آئے ہوئے سیاح اس حسین رات کے ہر ہر پل سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ٹاور کے اردگرد رنگ برنگی روشنیوں میں ٹہلتے، محبت کرنے والے جوڑے ، ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اپنی یادوں کو پرلطف بنانے کے لیے ایک دوسرے کو ہلکی ہلکی مسکراہٹ کے تحفے دے رہے تھے۔
ایک آخری ہچکولا لے کرمیٹرو ٹرین پیرس کے خوبصورت پاسی اسٹیشن پر رکتی ہے۔فہد اس ٹرین میں ایک جھمگٹےکو توڑ کرٹرین کے گیٹ سے بمشکل باہر نکلتا ہے۔ فہد عرصے سے پیرس کے دریائے سین کے کنارے ایک اپارٹمنٹ میں اپنی بیوی فرح اور دو بچوں ایمن اور احمد کے ساتھ مقیم تھا۔ وہ لاہور سے پیرس دس سال قبل آیا تھا اور فیشن ڈزائن کے بزنس سے وابستہ تھا۔فہد نے پاسی اسٹیشن سے باہر آتے ہی اپنے اپارٹمنٹ کی طرف قدم بڑھائے جو ذرا ہی فاصلے پر دریا کے مشرقی کنارے پربنا ہوا تھا۔ فیشن ڈائزئن کے شعبے سے وابستہ ہونے کے سبب وہ زندگی کے ہر ہر پہلو میں خوبصورتی تلاش کر تا تھا اور یہی وجہ بنی کہ دریاکے کنارے اس حسین جگہ کا انتخاب کیا گیا۔
فہد پیزا اور کولڈ درنک لے کر اپارٹمنٹ کی گیلری میں آ چکا تھا۔ بھیگی ہوئی اس خوبصورت رات میں دریائے سین کا شور اور دور دکھائی دینے والے ایفل ٹاور کی روشنیاں ایک سحر سا طاری کیے دیتی تھیں۔ فرح بچوں سمیت لاہور گئی ہوئی تھی تاکہ اسکے بچے اس سیاحتی مقام پر کرونا وائرس کے خطرے سے بچ سکیں۔فہد نے پیزا کا ایک اور لقمہ لیتے ہوئے قریب ہی پڑےایم پی تھری پلیئر پرپلے کا بٹن دبایا۔ فضا میں کوک اسٹوڈیو میں ریکارڈ کیے گئے سجاد علی کے گانے 'تم ناراض ہو' کی دھن فضا میں رس گھولنے لگی۔اب وہ ٹیبل پر پاوں رکھے آرام سے ایک آرام دہ کرسی پر نیم لیٹا ہوا سا تھا۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ کچن کاونٹر پر رکھا موبائل گونج اٹھا۔
"ہیلو!" یہ گجرانوالہ سے فرح کی دوست مہوش کا فون تھا۔ پاکستان پیرس سے تین گھنٹے آگے ہے۔ اس وقت پیرس میں ساڑھے گیارہ اور پاکستان میں رات کا ڈیڑھ بج چکا تھا۔ فہد حیران تھا کہ رات کے اس پہرفرح کی بچپن کی دوست اسکو کیونکر کال کر سکتی ہے۔ (جاری ہے۔۔۔)
آخری تدوین: