نوٹر ڈیم کتھیڈرل کے بارے میں کچھ دلچسپ حقائق
17/04/2019 ڈاکٹر لبنیٰ مرزا
آج 2019 کی پندرہ اپریل ہے۔ آج صبح کام پر آتے ہوئے مجھے یہ اندازہ بالکل نہیں تھا کہ نوٹر ڈیم کتھیڈرل پر مضمون لکھوں گی۔ صبح مریضوں کے آنے سے پہلے بیک کیے ہوئے آلو کے ٹکڑے کرکے اس پر مکھن ڈال کر جلدی جلدی کھا رہی تھی تو ایک صاحب نے ڈاکٹر فیم کو دیکھنے کے بعد ہال میں سے گزرتے ہوئے میرے آفس میں سر داخل کرکے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں نے ابھی تک ناشتہ نہیں کیا ہے؟ میری میز پر ایک کیلا رکھا تھا تو میں نے ان سے کہا کہ آپ چاہیں تو یہ کھا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا نہیں نہیں میں ایسے ہی مذاق کررہا ہوں۔ پھر کہنے لگے کہ مجھے شکریہ کہنے کا اس سے پہلے موقع نہیں ملا لیکن آج سے سات سال پہلے میں ہسپتال میں داخل تھا اور آپ مجھے دیکھنے آئی تھیں۔ آپ ”کائنڈ“ اور ”نائس“ تھیں، آپ نے میرا اچھا علاج کیا اور میں بہتر ہوگیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ سات سال گزر گئے اور آپ ٹھیک ٹھاک ہیں، یہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ پھر وہ چلے گئے۔ میں نے سوچا کہ خوش مریض آپ کے سامنے بتا دیتے ہیں کہ وہ خوش ہیں اور جو ناخوش ہوتے ہیں وہ انٹرنیٹ پر جاکر ساری دنیا کو بتاتے ہیں کہ وہ کتنے ناخوش ہیں۔ اس لیے ہمیں خود ہی انٹرنیٹ پر یہ بتانا ہوگا کہ ہمارے سارے مریض ناخوش نہیں ہوتے۔ اس لیے آج کے مضمون میں لکھ رہی ہوں کہ ہمارے کچھ مریض خوش بھی ہیں۔
لنچ بریک سے پہلے مریضوں کے درمیان میں نے بی بی سی پر خبر دیکھی کہ نوٹر ڈیم کتھیڈرل میں آگ لگی ہوئی ہے۔ میں نے فوراً یہ خبر اپنے بچوں کو بھیجی۔ ہم دو سال پہلے پیرس گئے تھے اور نوٹر ڈیم میں بھی گھوم پھر کر آئے تھے۔ وہاں میں نے کچھ تصویریں کھینچی تھیں جو اس مضمون کے ساتھ شامل ہیں۔ میں امید کرتی ہوں کہ اس آگ پر جلدی سے قابو پالیا جائے گا۔ امید ہے کہ اس آگ میں کسی کی جان نہیں جائے گی اور اس شاندار اور خوبصورت تاریخی عمارت کی دوبارہ مرمت ہوسکے گی۔
نوٹر ڈیم کتھیڈرل کے بارے میں کچھ دلچسپ حقائق یہ ہیں۔
1۔ نوٹر ڈیم پیرس کے بالکل مرکز میں واقع ہے۔ یہ وہاں بارہویں صدی سے کھڑا ہے۔ نوٹر ڈیم رومن شہنشاہیت کے زمانے سے مقدس سمجھے جانے والے جزیرے پر تعمیر کیا گیا تھا۔ جب رومن فوج نے 52 قبل مسیح میں گالز کو شکست دی تبھی سے یہ جزیرہ دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ مغربی حصے میں سلطنت کے معاملات سنبھالے جاتے تھے جہاں حکمران رہائش پذیر تھے اور مہمان آکر ٹھہرتے تھے۔ مشرقی حصہ عبادت کے لیے مخصوص تھا جہاں کئی مندر قائم تھے۔
انہی مندروں کی جگہ پر آگے چل کر نوٹر ڈیم کتھیڈرل بنایا گیا۔ اگر دنیا کے بڑے مذاہب کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ان کی عمارات پرانی عبادت گاہوں کو ہٹا کر ان زمینی جگہوں پر تعمیر کی گئی ہیں جو ان علاقوں کے انسانوں کے لیے مقدس تھیں۔ اس بات کا ذکر پروفیسر وائن ڈیلوریا نے اپنی کتاب گاڈ از ریڈ یعنی کہ خدا سرخ ہے میں بھی کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں میں بسنے والے خداؤں پر یقین کرنے والے افراد بھی اپنے لاشعور کی گہرائی میں زمین سے جڑے ہوئے ہیں۔
2۔ نوٹر ڈیم کتھیڈرل کے سامنے پیرس کا پوائنٹ زیرو ہے جس میں سمت دکھانے کے لیے ایک کمپاس بھی بنا ہوا ہے۔ اس نقطے کو استعمال کرکے پیرس سے دوسرے علاقوں کا فاصلہ ناپا جاتا ہے۔
3۔ کافی سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ آئفل ٹاور پیرس میں سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ پرکشش جگہ ہو گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ نوٹر ڈیم کو تمام دنیا سے دیکھنے کے لیے قریب 13 ملین افراد ہر سال آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قریب ہزار سال سے کھڑی اس خوبصورت عمارت کے جھلسنے کا منظر دنیا کے ہر کونے کے انسانوں کی دل شکنی کا باعث بنا ہے۔ نوٹر ڈیم کے اندر قدیم مجسمے اور شاہکار آرٹ کے نمونے جمع تھے جن کے جل جانے کا نقصان پورا نہیں کیا جاسکے گا۔
4۔ دیگر گرجا گھروں کی طرح نوٹر ڈیم کی گھنٹیوں کے بھی نام ہیں۔ ان میں سے زیادہ اہم ماری، ایمانیول، گیبریل این جینیوی، ڈینس، مارسل، ایٹیئین، بینوئی جوزف اور جین ماری ہیں۔ ان گھنٹیوں کے ناموں سے زیادہ ان کی زندگیاں دلچسپ ہیں۔ یہ گھنٹیاں شروع میں کوئی چھ سو سال پہلے لگائی گئی تھیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وکٹر ہیوگو کے 1831 میں شائع ہوئے ناول نوٹر ڈیم کا کبڑا میں یہ کردار ان گھنٹیوں کو بجانے کا ذمہ دار تھا۔ اس ناول کی وجہ سے اس تاریخی گرجاگھر کو ایک نئی توجہ حاصل ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کی دوبارہ سے مرمت ہوسکی۔ کتنی نسلیں یہ کہانی پڑھ کر بڑی ہوئیں جس کی وجہ سے نوٹر ڈیم کی تاریخ اجتماعی انسانی شعور کا حصہ ہے۔
1791 کے فرانسسی انقلاب کے دوران زیادہ تر گھنٹیاں اتارلی گئی تھیں اور ان کو پگھلا کر توپ کے گولے بنائے گئے تھے۔ فرانسسی انقلاب سے اس نئی دنیا کی بنیاد پڑی جس میں صدیوں سے مذاہب کے چنگل میں پھنسی انسانیت کو آزادی ملی اور سائنسی ترقی ممکن ہوسکی۔ 2013 میں نوٹر ڈیم کی 850 ویں سالگرہ کے موقع پر ان گھنٹیوں کو تبدیل کیا گیا۔ یعنی اس آگ میں جل جانے والی گھنٹیاں صرف آج سے پانچ سال پہلے لگائی گئی تھیں۔ اس وقت آگ سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ ساری دنیا سے لوگ پیسے بھیج رہے ہیں کہ اس انسانی ورثے کو دوبارہ سے بحال کیا جاسکے تاکہ آنے والی نسلیں ماضی سے تعلق محسوس کرسکیں۔ یہ آگ اور اس کے نتیجے میں جڑجانے والی انسانیت بھی دنیا کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔
5۔ نوٹر ڈیم کے لیے آج تک یہی کہا جاتا تھا کہ یہ ایک جنگل ہے کیونکہ اس کی 127 میٹر لمبی چھت مکمل طور پر لکڑیوں کی بنی ہوئی تھی۔ یہی وجہ سے کہ اس میں اتنی تیزی سے آگ پھیل گئی۔ یہ چھت کوئی 1300 درختوں سے بنی ہوئی تھی۔ میرے خیال میں نئی چھت میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی جس میں آگ سے محفوظ رہنے کی صلاحیت ہو۔
6۔ فرانسسی انقلاب کی تفصیل جاننے والے قارئین گلوٹین کے ذریعے سر تن سے جدا کرنے کی تاریخ سے واقف ہوں گے۔ نوٹر ڈیم کتھیڈرل میں بھی سر تن سے جدا کیے گئے تھے۔ اصلی انسانوں کے نہیں بلکہ مجسموں کے۔ فرانسسی انقلابی امراء سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ انہوں نے ان کو بادشاہوں کے مجسمے سمجھ کر توڑا پھوڑا لیکن وہ امراؤں کے مجسمے نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے پیغمبروں کے مجسمے تھے مثلاً ڈیوڈ اور سولومن۔ یہ مجسمے آج کی تاریخ تک تو وہاں بغیر سروں کے موجود تھے۔ اب کچھ وقت کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ قدیم زمانے کے گزرے ہوئے انسانوں کے ہاتھوں سے تراشے ہوئے ان تاریخی فن پاروں میں سے آج کی آگ میں کون سے جلنے سے بچ گئے ہیں۔
7۔ نوٹر ڈیم سنہرے تناسب سے بنا ہوا ہے۔ آرکیٹیکچر کی دنیا میں سنہرا توازن کسی بھی چوکور یا مستطیل میں دیکھا جاسکتا ہے جن کی اطراف 1 : 1.61 کے تناسب میں ہوتی ہیں۔ اس تناسب کو آرٹ کی دنیا میں بھی کمال کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ آرکیٹیکچر کی دنیا کی اہم عمارات جیسے کہ پارتھینان جو کہ روم میں ہے اور تاج محل جو کہ آگرہ انڈیا میں ہے، شامل ہیں۔ یہ دونوں شاہکار بھی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور امید ہے کہ دیگر قارئین کو بھی اپنی زندگی میں گزرے ہوئے بے شمار بے نام انسانوں کے ہاتھوں سے تراشے ہوئے ان تاریخی ورثوں کو دیکھنے کا موقع ملے گا۔
پارتھینان جانے کے بارے میں یہ یاد ہے کہ اس کے چھت کے مرکز میں موجود تیس فٹ سوراخ سے ایک کبوتر اندر آکر تخت پر بیٹھ گیا تھا اور سب سیاح اس کی تصویریں کھینچ رہے تھے۔ اس دن روم میں زبردست بارش ہوئی تھی۔ پارتھینان یونانی دیوی اتھینا کا 500 قبل مسیح میں تعمیر ہوا ایک مندر تھا جو بعد میں چرچ میں تبدیل کردیا گیا۔ اس طرح یہ حیران کن عمارت اپنے اردگرد کی شاندار عمارتوں کی طرح کھنڈر بننے سے بچ گئی تھی۔ ان بے جان پتھروں کے شاہکاروں سے انسانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ چلتے رہنا اور بدلتے رہنا کتنا اہم ہے۔
8۔ آخری دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ نوٹر ڈیم کتھیڈرل کے خزانوں میں سے سب سے قیمتی خزانہ مقدس تاج ہے جو یسوع مسیح کے سر پر رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ جس صلیب پر ان کو چڑھایا گیا تھا اس کا ایک ٹکڑا اور ایک نیل بھی موجود ہے جن کو مہینے کے آخری جمعے کے دن لوگ دور دور سے دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اس وقت معلوم نہیں کہ یہ آگ سے بچے ہوں گے یا نہیں۔ ان کی جگہ نقلی تاج وغیرہ رکھنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ کیا معلوم ایسا پچھلے دو ہزار سال میں پہلے بھی ہوچکا ہو؟