عاطف ملک
محفلین
احمد فرازؔ مرحوم کی ایک غزل کے ساتھ کی جانے والی واردات محفلین کی خدمت میں:
اس کے ابا سے معافی کی گزارش نہیں کی
بھاگ جانے کی بھی ہرگز کوئی کوشش نہیں کی
اِس پہ اُس نے بھی مری کوئی سفارش نہیں کی
الغرض باپ نے اس کے، مری بخشش نہیں کی
دو کزن، چار عدد بھائی اور ابا اس کے
سب نے پیٹا ہمیں اور ہم نے بھی جنبش نہیں کی
پیار سے سب کو ہی کہہ دیتا ہوں "بچے! " اکثر
شکر ہے آپ کو یوں کہنے کی لغزش نہیں کی
مل گیا ہم سے بریک اپ کا بہانہ اس کو
ہم نے جب بارہ بجے سالگرہ وِش نہیں کی
چغلیاں کھاتی ہے تیری یہ نکلتی ہوئی توند
تو نے اے دوست، کئی سال سے ورزش نہیں کی
دو برس میں بنے اٹھارہ سکینڈل اپنے
پھر بھی سسرال نے ہم سے کوئی پرسش نہیں کی
پِٹ کے بیوی سے بھی گھر سے نہیں نکلے عاطفؔ
"ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی"
بھاگ جانے کی بھی ہرگز کوئی کوشش نہیں کی
اِس پہ اُس نے بھی مری کوئی سفارش نہیں کی
الغرض باپ نے اس کے، مری بخشش نہیں کی
دو کزن، چار عدد بھائی اور ابا اس کے
سب نے پیٹا ہمیں اور ہم نے بھی جنبش نہیں کی
پیار سے سب کو ہی کہہ دیتا ہوں "بچے! " اکثر
شکر ہے آپ کو یوں کہنے کی لغزش نہیں کی
مل گیا ہم سے بریک اپ کا بہانہ اس کو
ہم نے جب بارہ بجے سالگرہ وِش نہیں کی
چغلیاں کھاتی ہے تیری یہ نکلتی ہوئی توند
تو نے اے دوست، کئی سال سے ورزش نہیں کی
دو برس میں بنے اٹھارہ سکینڈل اپنے
پھر بھی سسرال نے ہم سے کوئی پرسش نہیں کی
پِٹ کے بیوی سے بھی گھر سے نہیں نکلے عاطفؔ
"ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی"