عاطف ملک
محفلین
محمد تابش صدیقی بھائی کے کلام غزل: درِ مخلوق پہ سر اپنا جھکاتا کیا ہے ٭ تابش پر ہاتھ صاف کیا ہے۔امید ہے جسارت معاف کی جائے گی
وہ نہیں مانے گی یوں دل کو جلاتا کیا ہے
بھیج گھر اس کے پیام اس کو ستاتا کیا ہے
ہاتھ لگ بھی گئی ماچس اگر، انسان ہی رہ
بجھ گئی شمع تو اب بزم جلاتا کیا ہے
ایک لمحے کو بھی رکتی نہیں تیری یہ زباں
مجھ کو سچ سچ یہ بتا آج، تُو کھاتا کیا ہے؟
جن سے رکھتا ہے حسد، ان کے گریبان بھی پھاڑ
"ہر گھڑی دوسروں پر خاک اڑاتا کیا ہے"
اپنی محنت سے کمائے گا تو مانیں گے تجھے
باپ کے پیسے کا یوں رعب جماتا کیا ہے
آج چھٹی ہے تو آرام سے بچوں کو سنبھال
روز یاروں سے ملاقات کو جاتا کیا ہے
اپنے محبوب کی مرضی کے مطابق ہو جا
عینؔ عشق اس کے سوا اور سکھاتا کیا ہے
عین میم
مئی 2019
بھیج گھر اس کے پیام اس کو ستاتا کیا ہے
ہاتھ لگ بھی گئی ماچس اگر، انسان ہی رہ
بجھ گئی شمع تو اب بزم جلاتا کیا ہے
ایک لمحے کو بھی رکتی نہیں تیری یہ زباں
مجھ کو سچ سچ یہ بتا آج، تُو کھاتا کیا ہے؟
جن سے رکھتا ہے حسد، ان کے گریبان بھی پھاڑ
"ہر گھڑی دوسروں پر خاک اڑاتا کیا ہے"
اپنی محنت سے کمائے گا تو مانیں گے تجھے
باپ کے پیسے کا یوں رعب جماتا کیا ہے
آج چھٹی ہے تو آرام سے بچوں کو سنبھال
روز یاروں سے ملاقات کو جاتا کیا ہے
اپنے محبوب کی مرضی کے مطابق ہو جا
عینؔ عشق اس کے سوا اور سکھاتا کیا ہے
عین میم
مئی 2019
آخری تدوین: