محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
الف عین ، یاسر شاہ ، محمد احسن سمیع راحلؔ
پیروی دَیر کی اور لب پہ مدینے والے
کیا یہی طور ہیں الفت کے قرینے والے
صبر کے گھونٹ جو پیتے ہیں بہ عذرِ تقدیر
صبر کے گھونٹ نہیں، زہر ہیں پینے والے
پھول کھل سکتے ہیں صحراؤں میں اب بھی لیکن
آہ وہ لوگ رہے اب نہ قرینے والے
بے خبر حال سے ماضی سے گریزاں بھی ہو
تجھ کو معلوم نہیں طور ہی جینے والے
دل ترا پائے تو پائے بھی یہ تسکین کہاں
جب تلک روگ ترے دل میں ہیں کینے والے
اب مرے زخم مری روح تلک جا پہنچے
اب یہ سلنے کے نہیں چاک یہ سینے والے
موجِ دریا میں وہ غرقاب ہوئے ہیں آخر
نا خدا سے ہوئے بدظن جو سفینے والے
جن کا دل درد سے معمور سدا رہتا ہے
چاکِ دل کو ہیں وہی لوگ تو سینے والے
دل کے ہر روگ سے پاتے ہیں وہی لوگ نجات
عشق کے جام جو پیتے ہیں مدینے والے
کیا یہی طور ہیں الفت کے قرینے والے
صبر کے گھونٹ جو پیتے ہیں بہ عذرِ تقدیر
صبر کے گھونٹ نہیں، زہر ہیں پینے والے
پھول کھل سکتے ہیں صحراؤں میں اب بھی لیکن
آہ وہ لوگ رہے اب نہ قرینے والے
بے خبر حال سے ماضی سے گریزاں بھی ہو
تجھ کو معلوم نہیں طور ہی جینے والے
دل ترا پائے تو پائے بھی یہ تسکین کہاں
جب تلک روگ ترے دل میں ہیں کینے والے
اب مرے زخم مری روح تلک جا پہنچے
اب یہ سلنے کے نہیں چاک یہ سینے والے
موجِ دریا میں وہ غرقاب ہوئے ہیں آخر
نا خدا سے ہوئے بدظن جو سفینے والے
جن کا دل درد سے معمور سدا رہتا ہے
چاکِ دل کو ہیں وہی لوگ تو سینے والے
دل کے ہر روگ سے پاتے ہیں وہی لوگ نجات
عشق کے جام جو پیتے ہیں مدینے والے