امین شارق
محفلین
پیری میں یوں ہوتا ہے جوانی کا تصور
جیسے ہو بیابان میں پانی کا تصور
ایسے تمہاری یاد سے مسرور ہے یہ دل
راجہ کو جیسے خوش رکھے رانی کا تصور
چاہتے ہو اگر عشق میں کچھ مرتبہ ملے
دل سے بُھلادو دنیائے فانی کا تصور
آسانیاں تو ملتی ہیں مشکل کے بعد ہی
مشکل کھڑی کرتا ہے آسانی کا تصور
تیرے بغیر جینے کا جب سوچتے ہیں ہم
رنجیدہ کردیتا ہے ویرانی کا تصور
ہوکر جوان اب بھی لڑکپن نہیں گیا
ماضی میں جا بجا ہے نادانی کا تصور
اس آسمانِ گیتی کی سرحد سے نکل کر
جائے گا کہاں عقلِ انسانی کا تصور
دنیا میں اب ایوبی سے مومن نہیں رہے
ناپید ہے اب جوشِ ایمانی کا تصور
جیسے ہو بیابان میں پانی کا تصور
ایسے تمہاری یاد سے مسرور ہے یہ دل
راجہ کو جیسے خوش رکھے رانی کا تصور
اے دل ہمارے یار کی تصویر کے ہوتے
کیوں تنگ کرے دشمنِ جانی کا تصور
کیوں تنگ کرے دشمنِ جانی کا تصور
چاہتے ہو اگر عشق میں کچھ مرتبہ ملے
دل سے بُھلادو دنیائے فانی کا تصور
آسانیاں تو ملتی ہیں مشکل کے بعد ہی
مشکل کھڑی کرتا ہے آسانی کا تصور
تیرے بغیر جینے کا جب سوچتے ہیں ہم
رنجیدہ کردیتا ہے ویرانی کا تصور
ہوکر جوان اب بھی لڑکپن نہیں گیا
ماضی میں جا بجا ہے نادانی کا تصور
اس آسمانِ گیتی کی سرحد سے نکل کر
جائے گا کہاں عقلِ انسانی کا تصور
دنیا میں اب ایوبی سے مومن نہیں رہے
ناپید ہے اب جوشِ ایمانی کا تصور
شارؔق تیرے اشعار کو پڑھ کر ہمیں اکثر
آتا ہے دل میں میر کے ثانی کا تصور
آتا ہے دل میں میر کے ثانی کا تصور