پیری میں یوں ہوتا ہے جوانی کا تصور غزل نمبر 85 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
پیری میں یوں ہوتا ہے جوانی کا تصور
جیسے ہو بیابان میں پانی کا تصور

ایسے تمہاری یاد سے مسرور ہے یہ دل
راجہ کو جیسے خوش رکھے رانی کا تصور

اے دل ہمارے یار کی تصویر کے ہوتے
کیوں تنگ کرے دشمنِ جانی کا تصور

چاہتے ہو اگر عشق میں کچھ مرتبہ ملے
دل سے بُھلادو دنیائے فانی کا تصور

آسانیاں تو ملتی ہیں مشکل کے بعد ہی
مشکل کھڑی کرتا ہے آسانی کا تصور

تیرے بغیر جینے کا جب سوچتے ہیں ہم
رنجیدہ کردیتا ہے ویرانی کا تصور

ہوکر جوان اب بھی لڑکپن نہیں گیا
ماضی میں جا بجا ہے نادانی کا تصور

اس آسمانِ گیتی کی سرحد سے نکل کر
جائے گا کہاں عقلِ انسانی کا تصور

دنیا میں اب ایوبی سے مومن نہیں رہے
ناپید ہے اب جوشِ ایمانی کا تصور


شارؔق تیرے اشعار کو پڑھ کر ہمیں اکثر
آتا ہے دل میں میر کے ثانی کا تصور
 

یاسر شاہ

محفلین
امین شارق بھائی آپ کی غزل میں وزن کے مسائل بہت ہیں۔صرف مطلع بحر و وزن میں ہے باقی سب اشعار بحر سے خارج ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
امین شارق بھائی آپ کی غزل میں وزن کے مسائل بہت ہیں۔صرف مطلع بحر و وزن میں ہے باقی سب اشعار بحر سے خارج ہیں۔

تفصیل سے یہ کہ
کچھ اشعار کی بحر ہے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
( دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی)
کچھ کی
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
( کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور)
کچھ کا نصف حصہ اول بحر کا، باقی دوم کا
کچھ میں اس کا الٹا
 
Top