عبدالقیوم چوہدری
محفلین
ہمارے گاؤں میں آج تک کسی کو سانپ نے نہیں کاٹا-
نانا جی اسے پیر صاحب کی کرامت کہتے تھے- ہم نئے نئے وہابی ہوئے تو پیر کا لفظ سن کر پیٹ میں "پیڑ" اٹھنے لگتی- سو ایک دن پیٹ پکڑے نانا جی سے بحث کر بیٹھے جو پشت در پشت سنی تھے-
"سانپ نہیں کاٹتے تو کیا ہوا.....کتے تو کاٹتے ہیں ناں" ہم نے استدلال پیش کیا- " پیر صاحب نے کتوں کی نس بندی کیوں نہیں کی" -
ناناجی حقے کی چلم پر سنہری ڈور باندھتے ہوئے بولے " سائیاں دی مرضی...ہم نے سوال ای سپوں کا کیا تھا...کتوں کا کرتے تو شاید کتے بھی.........کھؤں...کھؤں...کھؤں..." نانا جی کو پھر کھانسی کا دورہ پڑ گیا-
حقہ نانا جی کا سب سے بڑا دشمن تھا اور وہ حقہ پرستی کی حد تک اس دشمن سے پیار کرتے تھے... پچھلے چھ ماہ سے وہ اس کی چلم پر کشیدہ کاری کر رہے تھے... نانا جی کے معمولات میں حقے کی دیکھ بھال کے علاوہ اس طوطیا نسل آم کی حفاظت بھی تھی جس پرانہوں نے ایک کنستر باندھ رکھا تھا اور اس سے بندھی رسی کو جھٹکے دیکر وہ سارا دن طوطے اڑایا کرتے تھے-
"جس دن پیر صاحب نے آنا تھا ....پورا گاؤں امڈ آیا تھا..." نانا جی ایک وقفے سے گویا ہوئے- میں ہمہ تن گوش ہوگیا-
"میں اس وقت تمہاری طرح کا بچہ تھا...اور اپنے بابا بھٹی خان کی انگلی تھامے ہجوم میں کھڑا تھا- سب لوگ ہاتھوں میں دودھ کی گڑویاں لئے پیر صاحب کی آمد کے منتظر تھے- کہیں دوپہر کو جاکر پیر صاحب کی چٹی گھوڑی آتی دکھائی دی....ان کے ساتھ دس بارہ مرید بھی تھے....واہ.... سبحان اللہ ...کیا نورانی مکھڑا تھا......سب لوگ دودھ کی گڑویاں لے کر آگے بڑھے....لیکن پیر صاحب مجمعے بھر کو چھوڑ کر میرے بابا پر ہی مہربان ہوئے ....خوشی سے بابا بھٹی کی ٹانگیں جواب دے گئیں...وہ گرتا پڑتا...بمشکل پیر صاحب تک پہنچا..."میں صدقےتھیواں ..." کہہ کر ڈبڈبائی آنکھوں سے دودھ کی گڑوی پیش کی....دودھ پی کر پیر صاحب نے دعا کےلیے ہاتھ اٹھائے تو بابا بھٹی بول اٹھا " سپاں واسطے وی کوئی دعا کرو....بوہت کاٹتے ہیں پیر جی...ہر طرف سپ ای سپ ہیں"
ساہیوال کا یہ گاؤں 1914 میں برٹش راج کی ایگریگیشن اسکیم کے تحت نیا نیا آباد ہو رہا تھا- یہاں ٹیلے اور ٹبوں میں سانپ بکثرت پائے جاتے تھے- جب سانپوں نے اپنا ہزار سالہ مسکن تباہ ہوتے دیکھا تو نو آباد کسانوں کو ڈنگ مارنے لگے- بھٹی خان نے ایک گڑوی دودھ پلا کر پیر صاحب کے سامنے گاؤں کا دیرینہ مسئلہ رکھ دیا -
دعا فرماکر پیر صاحب نے بشارت دی کہ آج کے بعد گاؤں کے سارے سانپ مینڈک بن جائیں گے....گاؤں والے فرط مسرت سے جھوم اٹھے..اور بابا بھٹی خان کا سر فخر سے اونچا ہو گیا -
نانا جی کے پاس قصے بہت تھے لیکن شاید وقت بہت کم - کچھ سالوں بعد وہ ہم سے بہت دور چلے گئے - ان کی وصیت کے مطابق انہیں اسی طوطیا آم کے نیچے دفن کیا گیا جس پر انہوں نے کنستر باندھ رکھا تھا-
مدتوں بعد تاریخ کی زنبیل کھنگالتے ہوئے کل میری ملاقات ان پیر صاحب سے ہو ہی گئی، جنہیں گڑوی دودھ پیش کرکے بابا بھٹی نے سانپوں کی نس بندی کروائی تھی-
نانا جی زندگی بھر یہی سمجھتے رہے کہ پیر صاحب نے محض ان کے گاؤں کے سانپوں کو ہی مینڈک بنایا - وہ نہیں جانتے تھے کہ اس درویش نے اس پھنیئر ناگ کو بھی "ڈڈو" بنا کر رکھ دیا جو بے شمار انسانوں کو ڈس چکا تھا-
یہ ناگ اتناخطرناک تھا کہ شکار کو پہلے اپنی مقناطیسی آنکھوں سے ہپناٹائز کرتا.....جب وہ دم بخود ہو جاتا تو آہستہ آہستہ ....پیار سے اسے دبوچتا.....پھر اس کی کھوپڑی کھول کر اس کا مغز کھا جاتا....اور اپنا تھوک اس کی کھوپڑی میں ڈال دیتا....مارگزیدہ مرنے کے بعد یکدم آنکھیں کھول لیتا....اور بالاخر خود بھی ایک سانپ بن جاتا-
شہر کے شہر ان سانپوں سے بھرے چلے جاتے تھے - یہ پیر صاحب کی ہی کرامت تھی کہ انہوں نے اللہ تعالی کی نصرت سے اس شیش ناگ کو مینڈک بنا دیا ورنہ بڑے بڑے سپیرے اس سے توبہ تائب ہوچکے تھے....یہاں تک کہ انگریز سپیرے بھی اپنی بین چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے -
اس شیش ناگ کو دنیا مرزا غلام احمد قادیانی کہتی ہے- اور اسے "ڈڈو" بنانے والی ہستی پیر مہرعلی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ تھے !!!
نانا جی اسے پیر صاحب کی کرامت کہتے تھے- ہم نئے نئے وہابی ہوئے تو پیر کا لفظ سن کر پیٹ میں "پیڑ" اٹھنے لگتی- سو ایک دن پیٹ پکڑے نانا جی سے بحث کر بیٹھے جو پشت در پشت سنی تھے-
"سانپ نہیں کاٹتے تو کیا ہوا.....کتے تو کاٹتے ہیں ناں" ہم نے استدلال پیش کیا- " پیر صاحب نے کتوں کی نس بندی کیوں نہیں کی" -
ناناجی حقے کی چلم پر سنہری ڈور باندھتے ہوئے بولے " سائیاں دی مرضی...ہم نے سوال ای سپوں کا کیا تھا...کتوں کا کرتے تو شاید کتے بھی.........کھؤں...کھؤں...کھؤں..." نانا جی کو پھر کھانسی کا دورہ پڑ گیا-
حقہ نانا جی کا سب سے بڑا دشمن تھا اور وہ حقہ پرستی کی حد تک اس دشمن سے پیار کرتے تھے... پچھلے چھ ماہ سے وہ اس کی چلم پر کشیدہ کاری کر رہے تھے... نانا جی کے معمولات میں حقے کی دیکھ بھال کے علاوہ اس طوطیا نسل آم کی حفاظت بھی تھی جس پرانہوں نے ایک کنستر باندھ رکھا تھا اور اس سے بندھی رسی کو جھٹکے دیکر وہ سارا دن طوطے اڑایا کرتے تھے-
"جس دن پیر صاحب نے آنا تھا ....پورا گاؤں امڈ آیا تھا..." نانا جی ایک وقفے سے گویا ہوئے- میں ہمہ تن گوش ہوگیا-
"میں اس وقت تمہاری طرح کا بچہ تھا...اور اپنے بابا بھٹی خان کی انگلی تھامے ہجوم میں کھڑا تھا- سب لوگ ہاتھوں میں دودھ کی گڑویاں لئے پیر صاحب کی آمد کے منتظر تھے- کہیں دوپہر کو جاکر پیر صاحب کی چٹی گھوڑی آتی دکھائی دی....ان کے ساتھ دس بارہ مرید بھی تھے....واہ.... سبحان اللہ ...کیا نورانی مکھڑا تھا......سب لوگ دودھ کی گڑویاں لے کر آگے بڑھے....لیکن پیر صاحب مجمعے بھر کو چھوڑ کر میرے بابا پر ہی مہربان ہوئے ....خوشی سے بابا بھٹی کی ٹانگیں جواب دے گئیں...وہ گرتا پڑتا...بمشکل پیر صاحب تک پہنچا..."میں صدقےتھیواں ..." کہہ کر ڈبڈبائی آنکھوں سے دودھ کی گڑوی پیش کی....دودھ پی کر پیر صاحب نے دعا کےلیے ہاتھ اٹھائے تو بابا بھٹی بول اٹھا " سپاں واسطے وی کوئی دعا کرو....بوہت کاٹتے ہیں پیر جی...ہر طرف سپ ای سپ ہیں"
ساہیوال کا یہ گاؤں 1914 میں برٹش راج کی ایگریگیشن اسکیم کے تحت نیا نیا آباد ہو رہا تھا- یہاں ٹیلے اور ٹبوں میں سانپ بکثرت پائے جاتے تھے- جب سانپوں نے اپنا ہزار سالہ مسکن تباہ ہوتے دیکھا تو نو آباد کسانوں کو ڈنگ مارنے لگے- بھٹی خان نے ایک گڑوی دودھ پلا کر پیر صاحب کے سامنے گاؤں کا دیرینہ مسئلہ رکھ دیا -
دعا فرماکر پیر صاحب نے بشارت دی کہ آج کے بعد گاؤں کے سارے سانپ مینڈک بن جائیں گے....گاؤں والے فرط مسرت سے جھوم اٹھے..اور بابا بھٹی خان کا سر فخر سے اونچا ہو گیا -
نانا جی کے پاس قصے بہت تھے لیکن شاید وقت بہت کم - کچھ سالوں بعد وہ ہم سے بہت دور چلے گئے - ان کی وصیت کے مطابق انہیں اسی طوطیا آم کے نیچے دفن کیا گیا جس پر انہوں نے کنستر باندھ رکھا تھا-
مدتوں بعد تاریخ کی زنبیل کھنگالتے ہوئے کل میری ملاقات ان پیر صاحب سے ہو ہی گئی، جنہیں گڑوی دودھ پیش کرکے بابا بھٹی نے سانپوں کی نس بندی کروائی تھی-
نانا جی زندگی بھر یہی سمجھتے رہے کہ پیر صاحب نے محض ان کے گاؤں کے سانپوں کو ہی مینڈک بنایا - وہ نہیں جانتے تھے کہ اس درویش نے اس پھنیئر ناگ کو بھی "ڈڈو" بنا کر رکھ دیا جو بے شمار انسانوں کو ڈس چکا تھا-
یہ ناگ اتناخطرناک تھا کہ شکار کو پہلے اپنی مقناطیسی آنکھوں سے ہپناٹائز کرتا.....جب وہ دم بخود ہو جاتا تو آہستہ آہستہ ....پیار سے اسے دبوچتا.....پھر اس کی کھوپڑی کھول کر اس کا مغز کھا جاتا....اور اپنا تھوک اس کی کھوپڑی میں ڈال دیتا....مارگزیدہ مرنے کے بعد یکدم آنکھیں کھول لیتا....اور بالاخر خود بھی ایک سانپ بن جاتا-
شہر کے شہر ان سانپوں سے بھرے چلے جاتے تھے - یہ پیر صاحب کی ہی کرامت تھی کہ انہوں نے اللہ تعالی کی نصرت سے اس شیش ناگ کو مینڈک بنا دیا ورنہ بڑے بڑے سپیرے اس سے توبہ تائب ہوچکے تھے....یہاں تک کہ انگریز سپیرے بھی اپنی بین چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے -
اس شیش ناگ کو دنیا مرزا غلام احمد قادیانی کہتی ہے- اور اسے "ڈڈو" بنانے والی ہستی پیر مہرعلی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ تھے !!!