پیر مہر علی شاہ سیمینار --- حمید نظامی ہال

الف نظامی

لائبریرین
حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہؒ سچے عاشق رسولؐ تھے، مرزائیت کے فتنے کو دفن کرنے کے لئے میدان کارزار میں اترے، انگریزوں کی اسلام کے خلاف سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے، درسگاہ اور خانقاہ کو اکٹھا کرنا ان کا عظیم کارنامہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار حمید نظامی ہال میں روزنامہ نوائے وقت، دی نیشن اور وقت نیوز کے زیراہتمام ’’پیر سید مہر علی شاہؒ گولڑہ شریف کی ملی خدمات‘‘ کے موضوع پر سیمینار میں مقررین نے کیا۔
صدارت پیر سید کبیر علی شاہ چورہ شریف نے کی۔ تلاوت قاری سید صداقت علی اور نعت شریف الحاج اختر حسین قریشی نے پیش کی۔ نظامت کے فرائض طارق اسماعیل ساگر نے انجام دیئے۔ اس موقع پر سینئر سیاستدان ملک غلام مصطفی کھر اور علامہ نزاکت حسین گولڑوی نے بھی اظہار خیال کیا۔ پیر سید کبیر علی شاہ نے کہا کہ پیر سید مہر علی شاہؒ فرقہ واریت کے قائل نہیں تھے۔ انہوں نے مرزائیت کے فتنے کو دفن کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج ہم سب اخلاص نیت سے اپنے گھروں سے غیر اسلامی رسومات کو فارغ کر دیں تو ہمارے گھروں میں اسلام آسکتا ہے۔ سابق گورنر وزیراعلیٰ پنجاب ملک غلام مصطفی کھر نے کہا کہ پیر مہر علی شاہؒ اللہ کے ولی تھے انہوں نے کہا کہ ایک مسلمان کو فرقہ کی بنیاد پر دوسرا مسلمان قتل کرکے ان لوگوں کو تقویت پہنچاتا ہے جو مسلمانوں کو مٹانا چاہتے ہیں۔
 

زینب

محفلین
نظامی بھائی پیرون مریدوں کے چکر سے باہر نکلیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کرتے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔یہ پیر یہ گدی نشین سارے جھوٹوں کا ٹولا ہے ویسے پیر تو اپنے گیلانی صاحب بھی ہیں کیا خیال ہے ان کے بارے میں
 

زینب

محفلین
میں سچی میں کسی پیر کے بارے میں جاننا ہی نہین چاہتی میں مانتی ہی نہیں کسی بھی پیر شیر کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے نام سنا ہوا ہے
 

زینب

محفلین
نظامی بھائی آپ خواہ مخواہ ناراض ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔پورے پاکستان پے ہی پیروں مرشدوں کا قبضا ہے ۔۔۔انڈیا میں مندر ہیں جہاں چڑھاوے چھڑہاے جاتے ہیں اور پاکستان میں دربار ہیں جہاں چادریں چھڑہائی جاتی ہیں وہاں پرشاد بٹتا ہے یہاں نیاز بٹتی ہے ان پیروں کے پیچھے لگ کے چلنا سراسر شرک ہے پا جی
 

الف نظامی

لائبریرین
بس!
حد اعتدال سے اگے نہ نکلیں۔ نہ سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور نہ اولیاء اللہ نے کہیں بھی شرک کی تعلیم نہیں‌دی۔
 

تیلے شاہ

محفلین
نظامی بھائی آپ خواہ مخواہ ناراض ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔پورے پاکستان پے ہی پیروں مرشدوں کا قبضا ہے ۔۔۔انڈیا میں مندر ہیں جہاں چڑھاوے چھڑہاے جاتے ہیں اور پاکستان میں دربار ہیں جہاں چادریں چھڑہائی جاتی ہیں وہاں پرشاد بٹتا ہے یہاں نیاز بٹتی ہے ان پیروں کے پیچھے لگ کے چلنا سراسر شرک ہے پا جی

:rollingonthefloor:
مزا آیا پڑھ کر دن دیہاڑے ایسی باتیں
 

زینب

محفلین
توبہ کریں‌تیلے بھائی نظامی بھائی خفا ہو گئے ہیں ۔:shameonyou:۔۔۔۔۔۔ابھی میں نے بس شروعات ہی کی تھی نظامی بھائی ناراض نا ہوتے تو اور بھی کچھ کہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپ کو تو پتا ہے میں بھایئوں سے لڑایئاں نہیں کیا کرتی اسی لیے شروع ہوتے ہی یک طرفی سیز فائر کر دیا میں نے :rollingonthefloor:
 

زینب

محفلین
نظامی بھائی بہت سمجھدار ہیں وہ اپ کی باتوں میں نہیں آیئں گے اپ یہ بھی کر کے دیکھ لیں ۔ویسے بھی میں بات ختم کر چکی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

تیلے شاہ

محفلین
ہاہاہاہا
چلیں ٹھیک ہے میں بھی بس ذرا مزے لے رہا تھا دوسروں کو لڑا کر
ورنہ کوئی اور مقصد نہیں تھا میرا
 

فرخ منظور

لائبریرین
نظامی بھائی پیرون مریدوں کے چکر سے باہر نکلیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کرتے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔یہ پیر یہ گدی نشین سارے جھوٹوں کا ٹولا ہے ویسے پیر تو اپنے گیلانی صاحب بھی ہیں کیا خیال ہے ان کے بارے میں

نظامی بھائی آپ خواہ مخواہ ناراض ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔پورے پاکستان پے ہی پیروں مرشدوں کا قبضا ہے ۔۔۔انڈیا میں مندر ہیں جہاں چڑھاوے چھڑہاے جاتے ہیں اور پاکستان میں دربار ہیں جہاں چادریں چھڑہائی جاتی ہیں وہاں پرشاد بٹتا ہے یہاں نیاز بٹتی ہے ان پیروں کے پیچھے لگ کے چلنا سراسر شرک ہے پا جی

میں نے وہابی خیالات کے اثر بذیر ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ میں بھی زینب کی طرح ایسی باتیں سوچا اور لوگوں سے کہا کرتا تھا۔ لیکن پھر مجھے عقل آگئی اور میں نے ایسی باتوں سے توبہ کر لی۔ بچپن میں نصاب کی کتابوں میں پڑھا تھا کہ برصغیر میں اسلام صوفی بزرگوں کی وجہ سے پھیلا لیکن چونکہ وہابی خیالات کا مالک تھا اس لئے اس بات کو بیکار سمجھتا رہا۔ لیکن جب علم کی حدیں وسیع ہوئیں تو پتہ چلا کہ واقعی ایسا ہی ہے۔ اگر یہ صوفی منش بزرگ نہ ہوتے تو برصغیر میں کبھی بھی اسلام نہیں‌ پھیل سکتا تھا۔
 

زینب

محفلین
میں آپ سے متفق نہیں ہوں ۔۔۔۔۔میں یہ تو مانتی ہوں‌کہ اس وقت کے بزرگوں نے اسلام کی خدمت کی تبلیخ کی ان کی میں بھی قدر و عزت کرتی ہوں ادب سے زکر کرتی ہوں ۔پر بھائی جی یہ جو ان کی آگے کی نسل ہے نا ان کا کوئی کردار نہیں اسلام کی خدمت میں یہ بس اپنے بزرگوں کا نام کیش کروا رہے ہیں اور بس۔۔۔۔۔۔۔بڑے نامی گرامی درباروں پے ایسے ایسے شرک کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ‌خدا کی پناہ۔۔۔کیا یہ ضروری ہے کہ والد اچھا ہو تو بیٹا بھی اچھا ہو۔۔۔ ان کے بزرگوں کی کیا سو کیا باقی کے ساب کھانے پینے والے ان کے بھائی بیٹے اور کچھ بھی نہیں
 

ظفری

لائبریرین
آج کل بہت کم آنا ہوتا ہے ۔ مگر جب بھی آتا ہوں کچھ ایسی باتیں سامنے آجاتیں ہیں ۔ جن کا جواب دیئے بغیر نہیں رہا جاتا ۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایسے موضوعات سے اجتناب کروں مگر بقول شاعر ۔۔۔ سچ منہ سے نکل جاتا ہے میں کوشش نہیں کرتا ۔

پیری مریدی کے حوالے سے جب بھی کوئی بات آئی تو ایک ہی ہستی سامنے آتی ہے ۔ جن کو یہ حیثیت حاصل ہے کہ ان کی ہر بات کے سامنے آپ کو سر و خم تسلیم کرنا ہے ۔ اور وہ ہستی رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے ۔ اس کے علاوہ کوکسی اور کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے کہ آپ اس کی بات بے چوں و چراں مانیں ۔ چناچہ پیر مریدی کو کوئی تصور اسلام میں کبھی قائم نہیں کیا گیا ۔ اسلام میں معلم اور متعلم کا رشتہ ہوتا ہے یعنی استاد اور شاگرد کا ۔ اللہ تعالی اگر کسی کو دین کی بصیرت یا فہم عطا کردیتا ہے تو انہیں لوگوں کو معلم کی حیثیت سے دین سکھانا چاہیئے اور عام لوگوں کو ان سے دین سیکھنا چاہیئے ۔ اس رشتے کی بلکل وہی نوعیت ہوتی ہے جو کہ دنیا کے باقی معاملات میں ہے ۔ یعنی کچھ لوگ مختلف علم و فنون کے مالک ہوتے ہیں اور لوگ ان سے استفادہ کرتے ہیں ۔ معلم اور متعلم کا جو رشتہ ہے یہ خود انبیاء کرام نے قائم کیا ۔ رسالت مآب صلی علیہ وسلم جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ انہیں خود اللہ نے واجب الاطاعت ہادی بنا کر بھیجا ہے اور ہم ان کو رسول کی حیثیت سے تسلیم کر لیتے ہیں ۔ ان کی ہر بات کے سامنے سر وخم تسلیم کرتے ہیں ۔ مگر خود رسول صلی اللہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ایک معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ حضرت عیسی کی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو وہ بار بار خود اپنے لیئے معلم کو لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ انبیاء علیہ السلام نے تو خود کو اسی رشتے میں باندھا ہے ۔
پیر مریدی میں انسانی شرف کی نفی ہوجاتی ہے یعنی آپ اپنی رائے ، نکتہ نظر ، اپنی سوچ اور اپنی فکر کو کسی اور کے سامنے سرینڈر کر دیتے ہیں ۔ یہ تو صرف ہم اللہ اور اسکے پیغمبر کے سامنے ہی کر سکتے ہیں ۔ اور آپ دیکھیں کہ اللہ اور اسکے پیغمبر نے بھی یہ مطالبہ نہیں کیا ۔ بلکہ جب بھی اپنی بات پیش کی اس کے لیئے آپ کی عقل کو آواز دی ہے ۔دلائل دیئے ہیں ۔ ثبوت مہیا کیئے ہیں ۔ بات کو سمجھایا ہے ۔ یہ انسانی شرف کا تقاضا ہے ۔ مگر پیر مریدی میں تو آپ شخصیت کی مجروح ہوجاتی ہے ۔ انفرادیت ختم ہوجاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی منقود ہوجاتی ہے ۔
فرخ بھائی نے برصغیر کے جن صوفیاء کرام کا حوالہ دیا ۔ ان کا دین کی فروغ و اشاعت میں بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ مگر آپ دیکھیں کہ انہوں نے بھی معلم کا ہی رشتہ قائم کیا ۔ لوگوں کو دین کی تعلیم دی ۔ دین سمجھایا اور سکھایا ۔ انہوں نے کبھی خود کو سجادہ نشین یا گدی نشین کا درجہ نہیں دیا ۔ ان کے بعد لوگوں نے کیسے ان کے محترم ناموں پر اپنی دوکانیں قائم کیں وہ ایک الگ بحث ہے ۔
 
Top