نوید انجانا
محفلین
پیسہ کمائو---پیسہ دکھائو
پیسہ زندگی کی ایک بہت بڑی ضرورت ہے اور اس حقیقت سے کوئی بھی باہوش انسان انکار نہیں کر سکتاخصوصاً آج کے جدید تیز رفتار معاشرے میں اس حقیقت کو انکار تو دور کی بات نظر اندازتک نہیں کیا جا سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ کس حد تک پیسہ زندگی کیلئے ضروری ہے ۔ پچیس فیصد، پچاس فیصد یا اسّی فیصد ۔ عام رائے کے مطابق پچاس فیصد پیسہ زندگی گذارنے کیلئے ضروری ہے کیونکہ پچیس فیصد سے تو زندگی کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہوپاتیں۔ اسّی فیصد پیسہ اگر آپ کو حاصل ہے تو زندگی پر وہی پیسہ حاوی رہے گا اور آپ کی زندگی آپ کا پیسہ گذارے گا۔
اس لئے آپ پیسے کو خرچ کریں اس سے پہلے کہ وہ آپ کو خرچ کرے یعنی زندہ رہنے کے لئے کھائیں ، کھانے کیلئے زندہ نہ رہیں۔
پیسہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے اور ضرورت سے زیادہ آجائے تو ہوس بڑھ جاتی ہے ۔ پیسہ کمانے کی دھن میں تیزی آجاتی ہے ۔ یوں زندگی کے وہ خوشگوار لمحے جو آپ کا سرمایہ ہوتے ہیں صرف پیسہ کمانے کے چکر میں ضائع ہوجاتے ہیں ۔ آج کل اگر دیکھا جائے تو گھر، گاڑی اور ہائی اسٹیٹس زندگی کے مقاصد بن گئے ہیں ۔ تعلیم اب سے کچھ سال پہلے تک شعور و آگہی کیلئے حاصل کی جاتی تھی مگر اب اسکا مقصد خاصا تبدیل ہوچکاہے۔ آج کل تعلیم صرف حصول روزگار یا بڑے عہدوں کی ملازمت یعنی بلاوسطہ دولت کے حصول کیلئے حاصل کی جاتی ہے ۔ تعلیم دلانے والے اور حاصل کرنے والے دونوں کے ذہنوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ اس تعلیم کے ذریعے جلد از جلد پیسہ کمانے والی مشین بن جائے ۔ جتنا زیادہ وہ پیسہ کمائے گا اتنا ہی قابل سمجھا جائے گا۔
کسی بھی انسان کو پرکھنے کا معیار پیسہ ہرگز نہیں ہوتا ۔ یہ ایک آنی جانی شے ہے۔ اس لئے عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ پیسہ کا عنصر ہٹا کر کسی انسان کی خصوصیات پر نظر ڈالیں۔ پیسہ کبھی بھی انسان کی اخلاقی اور روحانی تربیت نہیں کر سکتا۔ پیسہ سے ظاہری بناؤ سنگھار اور مصنوعی خوبصورتی تو پیدا کی جا سکتی ہے لیکن اصلی اور حقیقی حسن جو کسی کی شخصیت کو قابل اعتبار اور قابلِ محبت بناتا ہے وہ پیسے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
ایک اسکول ماسٹر کا گھرانہ کافی خوشحال ہے جوکہ اسکول ٹائم کے بعد شام کو گھر پر ٹیوشن دیتا ہے اور اس کی اوسط درجے کی تعلیم یافتہ بیوی گھر پر رہ کر بچوں کی تربیت کرتی ہے اور ان کے اخلاق سنوارتی ہے بہ نسبت اس بزنس مین کے جو سارے سال بزنس ٹور پر رہتے ہیں اور ان کی بیگم سماجی بہبود کے فرائض انجام دے رہی ہوتی ہیں حالانکہ اسی سماج میں ان کا گھرانہ بھی آتا ہے جو ان کی عدم دلچسپی کے باعث ہائی سوسائٹی کے بچوں کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے خاصا ناکام ہے ۔ حصولِ تربیت کا ذریعہ ہرگز بڑے اسکول نہیں ہیں ۔ تربیت گاہ ہونے کا پہلادرجہ ماں کی گود ہے ۔ یہ درست تربیت ماں بچے کو اسی وقت دے سکتی ہے جب اس کی تمام تر توجہ کا مرکز اس کا بچہ ہو اور یہ صحیح تربیت وہ بچے کو آج اس لئے نہیں دے پا رہی ہے کہ وہ بلا ضرورت گھر سے قدم باہر نکال رہی ہے صرف اس لئے کہ وہ اپنے اسٹیٹس کو بڑھائیں اور بچوں کی جائز ناجائز ضروریات و خواہشات کو پورا کر سکیں۔ اگر یہی ماں اپنی تعلیم کا صحیح استعمال کرتے ہوئے نمو د و نمائش کو ترک کرکے بچوں کو صحیح اور غلط میں تمیز سکھائے تو نتائج مختلف ہوں گے۔
پاکستان کی بات دیکھ لیجیے ۔ پاکستان کے بارے میں ہم اور آپ پڑھتے سنتے آئے ہیں کہ یہ ایک ترقی پذیر ملک ہے لیکن اگر ہمارے میڈیا کو دیکھا جائے تو یہ بات کافی مضحکہ خیز لگتی ہے ۔ میڈیا پیسہ کماؤ کی دوڑ کو بہت تقویت دے رہا ہے ۔ ہمارے میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا پر کوئی پروگرام خوبصورت چہروں، بڑے گھر، بڑی گاڑیوں اور بیرون ملک شاندار لوکیشنز کے بغیرنہ تو بنایا جاتا ہے نہ دکھایا جاتا ہے ۔ ان چیزوں کا اثر ہمارے معاشرے کے اَپر اور مڈل کلاس طبقہ پر بہت منفی ہوتا ہے اور وہاں پیسہ کماؤ اور پیسہ دکھاؤ کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع ہوجاتی ہے ۔
بات یہ ہے کہ ہماری سوچ کو دکھاوے نے اس قدر جکڑ لیا ہے کہ ہمیں آئینہ دکھایا جائے تو شاید آئینہ بھی شرماجائے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ آخرت پر کچھ ڈگمگا رہا ہے ۔ یہ بات شاید اب آپ ہر کسی سے سنتے ہونگے کہ تھوری سی زندگی ہے اسے انجوائے کیا جائے چاہے یہ انجوائے منٹ دھوکہ دہی ہو، فحاشی ہو یا پھر بے ایمانی ۔ یہی باتیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہمارا یمان کمزور ہوگیاہے۔
پیسہ کمانے اور دکھانے کے کچھ اسباب اور بھی ہیں۔مثلاً
٭ اپنے مذہب سے دوری
٭ گھرکے افراد کی بے جا خواہشات اور ان خواہشات کے حصول کیلئے حقداروں کو محروم کرکے حصول روزگار جو بے روزگار ی بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔
٭ مسلم ممالک کی اخلاقی اقدار کا زوال
٭ مسلم ممالک کا میڈیا جو ایک ایسے شخص کو ہیرو بناکر پیش کرتا ہے جو حصول دولت کیلئے ہر چور راستہ اختیار کر سکتا ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل نتائج کی پرواہ کئے بغیر انھی راستوں پر چل پڑتی ہے اور خود کو ہیرو سمجھتی ہے ۔ نوجوان نسل کی غلطی محض اتنی ہے کہ وہ دکھائے جانے والے راستوں پر چل رہی ہے ، اصل غلطی کس کی ہے ؟ کیا انکی غلطی نہیں جو نئی نسل کویہ راستہ دکھاتے ہیں اور وہ سب جو اصل بات جانتے ہیں ، حقیقت سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی نوجوان نسل کو راہ سے بھٹکنے سے روکتے نہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے زندگی کامقصد پیسہ کمانا اور اس پیسہ کی نمائش کرنا سمجھ لیا ہے ۔
اگر سوچا جائے تو اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں فیصلہ کرنا ہے ۔اپنا حساب کرنا ہے، وقت ختم ہونے سے پہلے ہمیں اس آواز کو سن لینا چاہیے جو ہمارا ضمیر ہر غلط کام کرتے وقت ہمیں دیتا ہے ۔ اب بھی وقت ہے صحیح راستے کے انتخاب اور صحیح راستے پر چلنے میں تھوڑی تکلیف سہنا تو پڑتی ہے لیکن اس تکلیف کو سہنے میں کوئی برائی نہیں کیونکہ یہ وہ راستہ ہے جس راہ میں دنیا کے کانٹے چبھتے تو ہیں مگر تکلیف نہیں دیتے بلکہ منزل کی راحت کا احساس دلاتے ہیں۔
٭٭٭
-----------------نوید انجانا------------------------
پیسہ زندگی کی ایک بہت بڑی ضرورت ہے اور اس حقیقت سے کوئی بھی باہوش انسان انکار نہیں کر سکتاخصوصاً آج کے جدید تیز رفتار معاشرے میں اس حقیقت کو انکار تو دور کی بات نظر اندازتک نہیں کیا جا سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ کس حد تک پیسہ زندگی کیلئے ضروری ہے ۔ پچیس فیصد، پچاس فیصد یا اسّی فیصد ۔ عام رائے کے مطابق پچاس فیصد پیسہ زندگی گذارنے کیلئے ضروری ہے کیونکہ پچیس فیصد سے تو زندگی کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہوپاتیں۔ اسّی فیصد پیسہ اگر آپ کو حاصل ہے تو زندگی پر وہی پیسہ حاوی رہے گا اور آپ کی زندگی آپ کا پیسہ گذارے گا۔
اس لئے آپ پیسے کو خرچ کریں اس سے پہلے کہ وہ آپ کو خرچ کرے یعنی زندہ رہنے کے لئے کھائیں ، کھانے کیلئے زندہ نہ رہیں۔
پیسہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے اور ضرورت سے زیادہ آجائے تو ہوس بڑھ جاتی ہے ۔ پیسہ کمانے کی دھن میں تیزی آجاتی ہے ۔ یوں زندگی کے وہ خوشگوار لمحے جو آپ کا سرمایہ ہوتے ہیں صرف پیسہ کمانے کے چکر میں ضائع ہوجاتے ہیں ۔ آج کل اگر دیکھا جائے تو گھر، گاڑی اور ہائی اسٹیٹس زندگی کے مقاصد بن گئے ہیں ۔ تعلیم اب سے کچھ سال پہلے تک شعور و آگہی کیلئے حاصل کی جاتی تھی مگر اب اسکا مقصد خاصا تبدیل ہوچکاہے۔ آج کل تعلیم صرف حصول روزگار یا بڑے عہدوں کی ملازمت یعنی بلاوسطہ دولت کے حصول کیلئے حاصل کی جاتی ہے ۔ تعلیم دلانے والے اور حاصل کرنے والے دونوں کے ذہنوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ اس تعلیم کے ذریعے جلد از جلد پیسہ کمانے والی مشین بن جائے ۔ جتنا زیادہ وہ پیسہ کمائے گا اتنا ہی قابل سمجھا جائے گا۔
کسی بھی انسان کو پرکھنے کا معیار پیسہ ہرگز نہیں ہوتا ۔ یہ ایک آنی جانی شے ہے۔ اس لئے عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ پیسہ کا عنصر ہٹا کر کسی انسان کی خصوصیات پر نظر ڈالیں۔ پیسہ کبھی بھی انسان کی اخلاقی اور روحانی تربیت نہیں کر سکتا۔ پیسہ سے ظاہری بناؤ سنگھار اور مصنوعی خوبصورتی تو پیدا کی جا سکتی ہے لیکن اصلی اور حقیقی حسن جو کسی کی شخصیت کو قابل اعتبار اور قابلِ محبت بناتا ہے وہ پیسے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
ایک اسکول ماسٹر کا گھرانہ کافی خوشحال ہے جوکہ اسکول ٹائم کے بعد شام کو گھر پر ٹیوشن دیتا ہے اور اس کی اوسط درجے کی تعلیم یافتہ بیوی گھر پر رہ کر بچوں کی تربیت کرتی ہے اور ان کے اخلاق سنوارتی ہے بہ نسبت اس بزنس مین کے جو سارے سال بزنس ٹور پر رہتے ہیں اور ان کی بیگم سماجی بہبود کے فرائض انجام دے رہی ہوتی ہیں حالانکہ اسی سماج میں ان کا گھرانہ بھی آتا ہے جو ان کی عدم دلچسپی کے باعث ہائی سوسائٹی کے بچوں کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے خاصا ناکام ہے ۔ حصولِ تربیت کا ذریعہ ہرگز بڑے اسکول نہیں ہیں ۔ تربیت گاہ ہونے کا پہلادرجہ ماں کی گود ہے ۔ یہ درست تربیت ماں بچے کو اسی وقت دے سکتی ہے جب اس کی تمام تر توجہ کا مرکز اس کا بچہ ہو اور یہ صحیح تربیت وہ بچے کو آج اس لئے نہیں دے پا رہی ہے کہ وہ بلا ضرورت گھر سے قدم باہر نکال رہی ہے صرف اس لئے کہ وہ اپنے اسٹیٹس کو بڑھائیں اور بچوں کی جائز ناجائز ضروریات و خواہشات کو پورا کر سکیں۔ اگر یہی ماں اپنی تعلیم کا صحیح استعمال کرتے ہوئے نمو د و نمائش کو ترک کرکے بچوں کو صحیح اور غلط میں تمیز سکھائے تو نتائج مختلف ہوں گے۔
پاکستان کی بات دیکھ لیجیے ۔ پاکستان کے بارے میں ہم اور آپ پڑھتے سنتے آئے ہیں کہ یہ ایک ترقی پذیر ملک ہے لیکن اگر ہمارے میڈیا کو دیکھا جائے تو یہ بات کافی مضحکہ خیز لگتی ہے ۔ میڈیا پیسہ کماؤ کی دوڑ کو بہت تقویت دے رہا ہے ۔ ہمارے میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا پر کوئی پروگرام خوبصورت چہروں، بڑے گھر، بڑی گاڑیوں اور بیرون ملک شاندار لوکیشنز کے بغیرنہ تو بنایا جاتا ہے نہ دکھایا جاتا ہے ۔ ان چیزوں کا اثر ہمارے معاشرے کے اَپر اور مڈل کلاس طبقہ پر بہت منفی ہوتا ہے اور وہاں پیسہ کماؤ اور پیسہ دکھاؤ کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع ہوجاتی ہے ۔
بات یہ ہے کہ ہماری سوچ کو دکھاوے نے اس قدر جکڑ لیا ہے کہ ہمیں آئینہ دکھایا جائے تو شاید آئینہ بھی شرماجائے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ آخرت پر کچھ ڈگمگا رہا ہے ۔ یہ بات شاید اب آپ ہر کسی سے سنتے ہونگے کہ تھوری سی زندگی ہے اسے انجوائے کیا جائے چاہے یہ انجوائے منٹ دھوکہ دہی ہو، فحاشی ہو یا پھر بے ایمانی ۔ یہی باتیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہمارا یمان کمزور ہوگیاہے۔
پیسہ کمانے اور دکھانے کے کچھ اسباب اور بھی ہیں۔مثلاً
٭ اپنے مذہب سے دوری
٭ گھرکے افراد کی بے جا خواہشات اور ان خواہشات کے حصول کیلئے حقداروں کو محروم کرکے حصول روزگار جو بے روزگار ی بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔
٭ مسلم ممالک کی اخلاقی اقدار کا زوال
٭ مسلم ممالک کا میڈیا جو ایک ایسے شخص کو ہیرو بناکر پیش کرتا ہے جو حصول دولت کیلئے ہر چور راستہ اختیار کر سکتا ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل نتائج کی پرواہ کئے بغیر انھی راستوں پر چل پڑتی ہے اور خود کو ہیرو سمجھتی ہے ۔ نوجوان نسل کی غلطی محض اتنی ہے کہ وہ دکھائے جانے والے راستوں پر چل رہی ہے ، اصل غلطی کس کی ہے ؟ کیا انکی غلطی نہیں جو نئی نسل کویہ راستہ دکھاتے ہیں اور وہ سب جو اصل بات جانتے ہیں ، حقیقت سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی نوجوان نسل کو راہ سے بھٹکنے سے روکتے نہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے زندگی کامقصد پیسہ کمانا اور اس پیسہ کی نمائش کرنا سمجھ لیا ہے ۔
اگر سوچا جائے تو اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں فیصلہ کرنا ہے ۔اپنا حساب کرنا ہے، وقت ختم ہونے سے پہلے ہمیں اس آواز کو سن لینا چاہیے جو ہمارا ضمیر ہر غلط کام کرتے وقت ہمیں دیتا ہے ۔ اب بھی وقت ہے صحیح راستے کے انتخاب اور صحیح راستے پر چلنے میں تھوڑی تکلیف سہنا تو پڑتی ہے لیکن اس تکلیف کو سہنے میں کوئی برائی نہیں کیونکہ یہ وہ راستہ ہے جس راہ میں دنیا کے کانٹے چبھتے تو ہیں مگر تکلیف نہیں دیتے بلکہ منزل کی راحت کا احساس دلاتے ہیں۔
٭٭٭
-----------------نوید انجانا------------------------