حسان خان
لائبریرین
پیش آئے گا وہ ہی لکھا جو ہے تقدیر کا
اس لیے قائل نہیں بندہ کسی تدبیر کا
خوں بہایا جس نے ناحق عاشقِ دلگیر کا
جوں شفق خوں ہو گا دامن گیر اُس بے پیر کا
غرقۂ دریا ہوا اُس زلفِ پیچاں کا اسیر
موج نے نقشہ اتارا صاف جو زنجیر کا
خاکساری سے سوا دولت کوئی دیکھی نہیں
اس کے پانے سے ہمیں رتبہ ملا اکسیر کا
غیر کے خط میں مجھے آیا ہے جو اُن کا سلام
آ گیا لکھا مرے آگے مری تقدیر کا
عذر اُس کو کیا رہا جو جان و دل بھی دے چکا
کاٹ ڈالا تم نے سر مفت ایسے بے تقصیر کا
شیشہ ساں جب چرخ جیسا سنگدل پانی ہوا
کیوں نہ ہوں مرہوں میں اپنی آہ کی تاثیر کا
کھینچ لایا جذبۂ دل اپنا اُس بے مہر کو
سیکھ لے ہم سے کوئی آ کر عمل تسخیر کا
آگے پروانے کے لے منہ میں زبانِ شمع کو
ہم سے یہ دیکھا نہیں جاتا ستم گل گیر کا
کھینچ لے مجھ زار جیسے کی اگر مانی شبیہ
تب میں سمجھوں اُس کو ہے کامل فنِ تصویر کا
میں ہوں وہ سینہ سپر اور وہ دم و خم مجھ میں ہے
روبرو آ کر مرے پھر جائے منہ شمشیر کا
آیا پہلو سے جگر میں، کی جگر سے دل میں راہ
کیوں نہ منت کش ہوں تیر انداز کا اور تیر کا
شور تم نے چن دیے حرفوں سے کاغذ میں شرر
کام دیتا ہے تمہارا خامہ آتش گیر کا
(جارج پیش شورؔ)
اس لیے قائل نہیں بندہ کسی تدبیر کا
خوں بہایا جس نے ناحق عاشقِ دلگیر کا
جوں شفق خوں ہو گا دامن گیر اُس بے پیر کا
غرقۂ دریا ہوا اُس زلفِ پیچاں کا اسیر
موج نے نقشہ اتارا صاف جو زنجیر کا
خاکساری سے سوا دولت کوئی دیکھی نہیں
اس کے پانے سے ہمیں رتبہ ملا اکسیر کا
غیر کے خط میں مجھے آیا ہے جو اُن کا سلام
آ گیا لکھا مرے آگے مری تقدیر کا
عذر اُس کو کیا رہا جو جان و دل بھی دے چکا
کاٹ ڈالا تم نے سر مفت ایسے بے تقصیر کا
شیشہ ساں جب چرخ جیسا سنگدل پانی ہوا
کیوں نہ ہوں مرہوں میں اپنی آہ کی تاثیر کا
کھینچ لایا جذبۂ دل اپنا اُس بے مہر کو
سیکھ لے ہم سے کوئی آ کر عمل تسخیر کا
آگے پروانے کے لے منہ میں زبانِ شمع کو
ہم سے یہ دیکھا نہیں جاتا ستم گل گیر کا
کھینچ لے مجھ زار جیسے کی اگر مانی شبیہ
تب میں سمجھوں اُس کو ہے کامل فنِ تصویر کا
میں ہوں وہ سینہ سپر اور وہ دم و خم مجھ میں ہے
روبرو آ کر مرے پھر جائے منہ شمشیر کا
آیا پہلو سے جگر میں، کی جگر سے دل میں راہ
کیوں نہ منت کش ہوں تیر انداز کا اور تیر کا
شور تم نے چن دیے حرفوں سے کاغذ میں شرر
کام دیتا ہے تمہارا خامہ آتش گیر کا
(جارج پیش شورؔ)