مزمل شیخ بسمل
محفلین
غالب کے اسلوب میں:
پیش خیمہ موت کا خوابِ گراں ہو جائے گا
سیکڑوں فرسنگ آگے کارواں ہو جائے گا
قالبِ خاکی کہاں تک ساتھ دے گا روح کا
وقت آ جانے دو اک دن امتحاں ہو جائے گا
چپکے چپکے ناصحا، پچھلے پہر رو لینے دے
کچھ تو ظالم، چارۂ دردِ نہاں ہو جائے گا
شب کی شب مہماں ہے یہ ہنگامۂ عبرت سرا
صبح تک سب نقشِ پائے کارواں ہو جائے گا
چشمِ نا محرم کجا اور جلوۂ محشر کجا
پردۂ عصمت وہاں بھی درمیاں ہو جائے گا
اشک ٹپکے یا نہ ٹپکے دل بھر آئے گا ضرور
آہ کرنے دیجئے آپ امتحاں ہو جائے گا
سایۂ دیوار سے لپٹے پڑے ہو خاک پر
اٹھ چلو ورنہ وہ کافر بد گماں ہوجائے گا
یاسؔ اس چرخِ زمانہ ساز کا کیا اعتبار
مہرباں ہے آج، کل نا مہرباں ہو جائے گا