سید فصیح احمد
لائبریرین
سب اہلِ سُخن، سوہنے سوہنے دوستوں کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں۔
کیوں کہ یہ میرا اولین مراسلہ یا یوں کہ لیں کہ رسید ہے تو اپنے تعرف میں بس اِتنا کہنا چاہوں گا کہ میں شائد آپ جیسے باقائدہ لِکنے والے محترمین کی صف میں تو شائد اچھے سے تحلیل نہ ہو پاوؑں لیکن زندگی کی ایک مختصر گردان فن ِ” Interior Designing “ جو میرے حصہ میں آئی کو گردانتے ہوئے بعض اوقات گھُٹے ہوئے جزبات کو کورے کاغز پر لِکھنے کی عادت بن گئی اور شائد اِسی وجہ سے آپ جیسے معزِز حرف شناس احباب کہنے لگے کہ شاہ جی بھی قلم سے کبھی کبھی زور آزمائی کر لیتے ہیں۔
بے حد ممنون ہوں اُن تمام دوستوں کا جنہوں نے ایسی دِل رُبا دُنیا ہم حرف تِشنہ لوگوں کے لیئے بسا ڈالی۔
جزباتی غلبہ کے بائث تعرف طویل ہو جانے کے لیئے صد معازرت اور یہ میری ایک آزاد نظم دوستوں کے لیئے ذیل میں چِسپاں کر رہا ہوں۔
سید فصیح احمد
پیلا سورج !
اے خزاں کے سورج
ذرا اور زور سے چمک !!
ذرا بیتاب ہو کے چمک !!
احساسات کی دلدل میں اب بھی
ذرا نمی باقی ہے ، زندگی باقی ہے
اتنا چمک کہ زندگی نہ بچے
دلدل پے جمی کائی اور جم جائے
اس میں نمی نہ بچے
اے خزاں کے پیلے سورج
اِن برگدوں کے سینوں پے نشانِ دِل
مجھے اچھے نہیں لگتے
تو اس قہر سے چمک کہ
وقت کی دیمک بیتاب ہو کر
بہت بیدردی سے چاٹ ڈالے انہیں
میری حسرتوں کے جنازے کے مخلص ساتھی
میری خزاں زندگی کی اکلوتی امید
اے خوشیوں کو کھا جانے والے
آنسؤں کو مٹی بنا دینے والے
پیلے سورج
ذرا اور زور سے چمک ۔۔۔ !
مجھے لگتا ہے ایک ہالہ سا کِسی شخص کا
اب بھی شام ڈھلے لمبے سائیوں کے بیچ کہیں
مجھ سے آنکھ مچولی کھیلتا ہے
جب تیری زرد کرنوں کی برباد تپش ماند پڑتی ہے
جب تو نارنجی ہوتا ہے
تو اتنی بے رحمی سے چمک کہ
اس سائے کا وجود محسوس کرنے کی جسارت نہ کرے
میرا احمق دِل
کچھ ایسا کر ، اسے خشک کر دے
اس کے کونوں میں دبے خوابوں کے باقیات
دل کی دہلیز سے اجڑ جائیں
میرے آنسوں اپنی دھاروں سے بچھڑ جائیں
میرے کپکپاتے ہونٹ پپڑی سے جم جائیں
مجھے میری آنسو جھیلوں پر پریاں نہیں
ویرانی کے وسوسے آباد کرنے ہیں
میرے ہنستے دن ، چیخ و پُکار ، فریاد کرنے ہیں
کچھ کھنڈر آباد کرنے ہیں
اے پیلاہٹ کے بیتاج بادشاہ تو سن رہا ہے نا مجھے؟
کہ باقی سب بربادی کے انداتاؤں کی مانند
تو بھی چھوڑ جائے گا مجھے؟
اس آدھی ہنسی والے موسم میں ،
اس کھل کر نہ برس پانے والی بارش میں ،
اپنے کھنڈر ساحل پے ماتم میں مصروف
میری جھیلوں کے کنارے ۔۔۔
تو سن رہا ہے نا مجھے؟
میری زندگی کے خیرآباد کی آخری بیھانک امید
تجھے تیری زندگی دشمن کرنوں کی قسم
میری زندگی کے سب رنگوں کو آج ماتم کر دے
آج کا دن
سب حسرتوں کے لیئے قیامت کر دے
میرے محبوب پیلے سورج
موت کے پیغمبر پیلے سورج
ذرا اور زور سے چمک ۔۔۔ !
کیوں کہ یہ میرا اولین مراسلہ یا یوں کہ لیں کہ رسید ہے تو اپنے تعرف میں بس اِتنا کہنا چاہوں گا کہ میں شائد آپ جیسے باقائدہ لِکنے والے محترمین کی صف میں تو شائد اچھے سے تحلیل نہ ہو پاوؑں لیکن زندگی کی ایک مختصر گردان فن ِ” Interior Designing “ جو میرے حصہ میں آئی کو گردانتے ہوئے بعض اوقات گھُٹے ہوئے جزبات کو کورے کاغز پر لِکھنے کی عادت بن گئی اور شائد اِسی وجہ سے آپ جیسے معزِز حرف شناس احباب کہنے لگے کہ شاہ جی بھی قلم سے کبھی کبھی زور آزمائی کر لیتے ہیں۔
بے حد ممنون ہوں اُن تمام دوستوں کا جنہوں نے ایسی دِل رُبا دُنیا ہم حرف تِشنہ لوگوں کے لیئے بسا ڈالی۔
جزباتی غلبہ کے بائث تعرف طویل ہو جانے کے لیئے صد معازرت اور یہ میری ایک آزاد نظم دوستوں کے لیئے ذیل میں چِسپاں کر رہا ہوں۔
سید فصیح احمد
پیلا سورج !
اے خزاں کے سورج
ذرا اور زور سے چمک !!
ذرا بیتاب ہو کے چمک !!
احساسات کی دلدل میں اب بھی
ذرا نمی باقی ہے ، زندگی باقی ہے
اتنا چمک کہ زندگی نہ بچے
دلدل پے جمی کائی اور جم جائے
اس میں نمی نہ بچے
اے خزاں کے پیلے سورج
اِن برگدوں کے سینوں پے نشانِ دِل
مجھے اچھے نہیں لگتے
تو اس قہر سے چمک کہ
وقت کی دیمک بیتاب ہو کر
بہت بیدردی سے چاٹ ڈالے انہیں
میری حسرتوں کے جنازے کے مخلص ساتھی
میری خزاں زندگی کی اکلوتی امید
اے خوشیوں کو کھا جانے والے
آنسؤں کو مٹی بنا دینے والے
پیلے سورج
ذرا اور زور سے چمک ۔۔۔ !
مجھے لگتا ہے ایک ہالہ سا کِسی شخص کا
اب بھی شام ڈھلے لمبے سائیوں کے بیچ کہیں
مجھ سے آنکھ مچولی کھیلتا ہے
جب تیری زرد کرنوں کی برباد تپش ماند پڑتی ہے
جب تو نارنجی ہوتا ہے
تو اتنی بے رحمی سے چمک کہ
اس سائے کا وجود محسوس کرنے کی جسارت نہ کرے
میرا احمق دِل
کچھ ایسا کر ، اسے خشک کر دے
اس کے کونوں میں دبے خوابوں کے باقیات
دل کی دہلیز سے اجڑ جائیں
میرے آنسوں اپنی دھاروں سے بچھڑ جائیں
میرے کپکپاتے ہونٹ پپڑی سے جم جائیں
مجھے میری آنسو جھیلوں پر پریاں نہیں
ویرانی کے وسوسے آباد کرنے ہیں
میرے ہنستے دن ، چیخ و پُکار ، فریاد کرنے ہیں
کچھ کھنڈر آباد کرنے ہیں
اے پیلاہٹ کے بیتاج بادشاہ تو سن رہا ہے نا مجھے؟
کہ باقی سب بربادی کے انداتاؤں کی مانند
تو بھی چھوڑ جائے گا مجھے؟
اس آدھی ہنسی والے موسم میں ،
اس کھل کر نہ برس پانے والی بارش میں ،
اپنے کھنڈر ساحل پے ماتم میں مصروف
میری جھیلوں کے کنارے ۔۔۔
تو سن رہا ہے نا مجھے؟
میری زندگی کے خیرآباد کی آخری بیھانک امید
تجھے تیری زندگی دشمن کرنوں کی قسم
میری زندگی کے سب رنگوں کو آج ماتم کر دے
آج کا دن
سب حسرتوں کے لیئے قیامت کر دے
میرے محبوب پیلے سورج
موت کے پیغمبر پیلے سورج
ذرا اور زور سے چمک ۔۔۔ !
آخری تدوین: