جوش پیمانِ محکم - حضرت جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
قسم اُن غازیوں کی، موت سے جو جنگ کرتے ہیں
اُپی تلوار کی بُرّش سے جن کے زخم بھرتے ہیں
قسم اُن کی جو ہنس کر خون میں اپنے نہاتے ہیں
خوشی سے رن میں ڈٹ کر منہ پہ تلواریں جو کھاتے ہیں
قسم اُن کی، نظر تیر و سناں سے جن کی لڑتی ہے
اکڑ جاتے ہیں طبلِ جنگ پر جب چوٹ پڑتی ہے
قسم اُس نور کی بخشا گیا تھا جو رسالت کو
قسم اُس سوزِ پنہاں کی جو ملتا ہے محبت کو
قسم اُس برق کی جو گر کے خرمن پھونک دیتی ہے
قسم اُس موت کی جو خنجروں میں سانس لیتی ہے
قسم ہے اُس کماں کی جو سرِ میداں کڑکتی ہے
قسم اُس آگ کی جو قلبِ شاعر میں بھڑکتی ہے
قسم اُس زخم خوردہ شیر کی خونی ڈکاروں کی
گرج سے جس کی نبضیں چھوٹ جاتی ہیں کچھاروں کی
قسم اُس جذبۂ غیرت کی جو آزاد کرتا ہے
قسم اُس طنطنے کی جس پہ ہر خوددار مرتا ہے
قسم اُس شعلۂ غم کی، جو فرقت میں بھڑکتا ہے
قسم ہے اُس لہو کی، چشمِ تر سے جو ٹپکتا ہے
قسم اُس گھن گرج پُرہول توپوں کے دہانوں کی
گرج سے جن کی ہل جاتی ہیں بنیادیں چٹانوں کی
قسم اُس کھڑکھڑاہٹ کی زرہ سے جو نکلتی ہے
قسم اُن زمزموں کی، جن کی رَو پر فوج چلتی ہے
قسم گھوڑوں کی اُن ٹاپوں کی، جو رن کو ہلاتی ہیں
سروں پر گرد کا اک خونچکاں بادل بناتی ہیں
قسم اُس سانس کی، جو موت کے ہنگام چلتی ہے
قسم اُس وقت کی، جب زندگی کروٹ بدلتی ہے
قسم اُس عزم کی، ساونت جب میداں میں جاتے ہیں
دمِ رخصت عروسِ نو کا جب گھونگھٹ اٹھاتے ہیں
قسم اُس کی، ثبوت اپنی شرافت کا جو لاتا ہے
نسب نامے پر اپنے خون کی مہریں لگاتا ہے
قسم اے موت اُن کی، رنگ تیرا جو اڑاتے ہیں
تری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جو مسکراتے ہیں
قسم اُن قوتوں کی، جو ملی تھیں رام و لچھمن کو
قسم اُس آگ کی، جو کھا گئی تھی ملکِ راون کو
قسم اُس نور کی، روشن تھے جادے جس سے صحرا کے
جھمکتا تھا جو ٹیکے کی طرح ماتھے پہ سیتا کے
قسم اُس ضرب کی، توڑا تھا جس نے بابِ خیبر کو
قسم اُس شیر کی، جس نے چبا ڈالا تھا عنتر کو
قسم اُس پیاس کی، کوثر کی رَو پر جس کا قبضہ تھا
قسم اُس ابر کی، جو کربلا میں گھِر کے برسا تھا
قسم اُس تیر کی، چلتا تھا جو چُٹکی سے ارجُن کی
قسم میدان میں گاتی ہوئی تلوار کی دھن کی
قسم اُس جوشؔ کی، جو ڈوبتی نبضیں ابھارے گا
کہ اے ہندوستاں! جیسے ہی تو مجھ کو پکارے گا
مری تیغِ رواں، باطل کے سر پر جگمگائے گی
ترے ہونٹوں کی جنبش ختم بھی ہونے نہ پائے گی
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۳۳ء
 
واہ بھائی واہ۔
بہت دنوں بعد یہ نظم پڑھنے کو ملی ہے۔ میں تو یہ بھی بھول چکا تھا کہ یہ حضرت جوشؔ کی ہے۔
بہت خوش رہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
وعلیکم السلام۔
پسندیدگی کے لیے شکریہ فارقلیط صاحب۔

واہ بھائی واہ۔
بہت دنوں بعد یہ نظم پڑھنے کو ملی ہے۔ میں تو یہ بھی بھول چکا تھا کہ یہ حضرت جوشؔ کی ہے۔
بہت خوش رہو۔

بہت شکریہ جنابِ حجاز۔ مجھے اس بات کی ہمیشہ خوشی رہی ہے کہ آپ بھی حضرتِ جوش کے معتقد ہیں۔
 
بہت شکریہ جنابِ حجاز۔ مجھے اس بات کی ہمیشہ خوشی رہی ہے کہ آپ بھی حضرتِ جوش کے معتقد ہیں۔

ہم نہ صرف جنابِ جوشؔ کے معتقد اور ارادتمند ہیں بلکہ مدیون بھی ہیں۔
اس کے لیے ایک الگ دھاگہ درکار ہے کہ ہم کیوں حضرتِ جوشؔ کے مدیون ہیں!
 
Top