جگر پیوست دل میں جب ترا تیرِ نظر ہوا ۔ جگر مرادآبادی

شاہ حسین

محفلین
پیوست دل میں جب ترا تیرِ نظر ہوا
کس کس ادا سے شکوۂ دردِ جگر ہوا

کچھ داغِ دل سے تھی مجھے امید عشق میں
سو رفتہ رفتہ وہ بھی چراغِ سحر ہوا

تھم تھم کے اُن کے کان میں پہنچی صدائے دل
اُڑ اُڑ کے رنگِ چہرہ مرا نامہ بر ہوا

سینے میں پھر بھڑکنے لگی آتشِ فراق
دامن میں پھر معاملہء چشمِ تر ہوا

رگ رگ نے صدقے کر دیا سرمایۂ شکیب
اللہ! کس کا خانۂ دل میں گزر ہوا

فریاد کیسی ؟ کس کی شکایت ؟ کہاں کا حشر ؟
دنیا اُدھر کی ٹوٹ پڑی وہ جدھر ہوا

وارفتگئی شوق کا اللہ رے کمال!
جو بے خبر ہوا وہ بڑا باخبر ہوا

حسرت اُس ایک طائرِ بے کس پر ، اے جگر
جو فصلِ گل کے آتے ہی بے بال و پر ہوا

جگر مرادآبادی
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے، شکریہ شاہ صاحب شیئر کرنے کیلیے!


تھم تھم کے اُن کے کان میں پہنچی صدائے دل
اُڑ اُڑ کے رنگِ چہرہ مرا نامہ بر ہوا

فریاد کیسی ؟ کس کی شکایت ؟ کہاں کا حشر ؟
دنیا اُدھر کی ٹوٹ پڑی وہ جدھر ہوا

وارفتگئی شوق کا اللہ رے کمال!
جو بے خبر ہوا وہ بڑا باخبر ہوا

واہ واہ واہ، لاجواب
 
Top