پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نعیم الحق انتقال کر گئے

جاسم محمد

محفلین
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نعیم الحق انتقال کر گئے
Last Updated On 15 February,2020 08:25 pm
532737_65070759.jpg

کراچی: (دنیا نیوز) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما نعیم الحق انتقال کر گئے۔

وفاقی وزیر فواد چودھری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق انتقال کر گئے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما نعیم الحق گزشتہ چند دنوں سے بیمار تھے، انہیں کینسر کی بیماری تھی اور کافی عرصے سے علاج کے لیے ہسپتال میں داخل تھے۔

ذرائع کے مطابق ہسپتال میں داخل ہونے والے پی ٹی آئی سینئر رہنما نعیم الحق کی طبیعت بگڑ گئی جس کے بعد نعیم الحق کو کراچی کے آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا۔

وفاقی وزیر فواد چودھری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق انتقال کر گئے ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نعیم الحق نے شیروں کی طرح کینسر کی بیماری کا مقابلہ کیا۔ ایک دوست، بڑے کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے انہوں نے مزید لکھا کہ اللہ تعالیٰ نعیم الحق کی بخشش کرے۔
 

آورکزئی

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ انکے دراجات بلند فرمائیں۔۔۔ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائیں۔۔۔۔آمین​
 

جاسم محمد

محفلین
نعیم الحق
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین 4 گھنٹے پہلے


’’ ارے کیا کرتے ہو عامر میاں ؟ یار تم مجھے بتایا کرو،کسی سے مت الجھا کرو، دیکھتا ہوں کوئی کیسے ہمارے عامرکو تنگ کرتا ہے‘‘ عجیب بازگشت سازجملے تھے اور اْس پر محیر خیزاندازِ اپنائیت! گذری شام سے اسی فکر میں مستغرق ہوں کہ اب کون کہے گا ؟ اب کون پوچھے گا؟میری خاموش ناراضگی کو سمجھنے والا تو چل بسا، میرے لبوں سے الفاظ کی مالا میں شکوے شکایات سے بھرے جملے تو بعد میں دمکتے تھے وہ ان کی روشنی پہلے ہی سے چْرا لیا کرتا تھا ، بہت جلدی تھی اسے جانے میں، وہ کسی کے بھی بلاوے پر اب واپس پلٹنے کو تیار نہ تھا کیونکہ ’’ الحق‘‘ کا بلاوا ہوتا ہی اتنا خاص ہے کہ تمام چاہنے والوں کی پکارتی آوازیں،قل لا شریک بزرگ و برترکی ’’ کْن ‘‘ کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتی ہیں ، سو وہ بھی سجدہ ریز ہوگیا اور نعیم الحق سے ’’نعیم القبر‘‘ یعنی سکون و راحتِ قبر بن گیا۔

اْسے لڑنے کا بے انتہا شوق تھا،کپتان کے دشمن اْسے ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے، مجھ سے بھی اْس وقت تک لڑتا رہا جب تک کہ میں اْس کے اور اپنے کپتان کا ’’عامر‘‘ نہیں بن گیا اور جس دن بنا اْس دن سے اْس نے مجھے پلکوں پر بٹھائے رکھا مگر تب بھی لڑنا نہیں چھوڑا ، تاہم اب جب بھی لڑتا ہار مان لیا کرتا تھا ، میں پوچھتا ’’کیوں کوئی جواب ہے؟‘‘ ہنس کر کہتا ’’عامر میاں !جن پر لاڈ آتا ہے اْنہیں ڈانٹنے کو بھی دل نہیں چاہتا حالانکہ تمہاری شرارتوں پرکان کھینچنے کا دل کرتا ہے‘‘ اور پھر یوں ہی مسکرا دیتا ، تعجب تو اس بات پر ہے کہ وہ صاحبِ فراش ہونے کے بعد بھی لڑتا رہا ، اپنی جان لیوا بیماری سے مسلسل الجھتا رہا ، دام میں آکر بھی بچ بچ کے نکلنا کینسرکو شکست دینا نہیں تو اور کیا ہے؟

کون کہتا ہے اسے کینسر نے مارا؟ نہیں ! اْس نے کینسر کا اپنے ہاتھوں سے گلا دبایا، اپنے دوست کا ساتھ دے کر اس نے کئی کینسر اسپتال بنانے کے وہ خواب اپنی آنکھوں میں سجا رکھے تھے کہ کینسرکی کیا جرات جو اس کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر جان لے سکتا ! وہ تو ہر نفس کی طرح حکم الہی کے تابع تھا ، اِدھر بلاوے کاآنا تھا کہ اْس نے بہر حال جانا تھا ، جانتا نہیں تھا کہ اس قدرکمی محسوس کروں گا، ہمارا دکھاؤے کا رشتہ ہی نہ تھا، ڈانٹ پڑتی تو بنا تکلف اور پیار ملتا تو ندی کے شورکے طرح جس نے تھمنا سیکھا ہی نہیں، اختلاف ہوتا تو دونوں میں کھل کر اور اتفاق ہوتا تو نعیم بھائی نے پھر اْس موضوع پر بحث کرنا ہی نہیں ہے۔ میں نے آخری ملاقات میں بہت دیرکر دی، جب پہنچا تو ملاقات کا وقت سب ہی کے لیے ختم ہوچکا تھا ، ہم سب نعیم بھائی کے پاس تھے البتہ نعیم بھائی ہمارے پاس نہیں تھے، میں تو برملا کہتا ہوں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ میرا اپنے کپتان کی تیئس سالہ جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں ، مجھے تو ابھی صرف دو برس بیتے ہیں مگر نعیم بھائی تب سے تھے جب صرف دو تھے اور تب تک رہے جب تعداد گنتی کی محتاج نہ تھی۔

آج وہ جا چکے، اْن کے ابوابِ گنا و ثواب مکمل ہوئے مگر اتنا ضرور لکھوں گا کہ ’’ جو لوگ یہ نہیں جانتے کہ قیامت کے دن اْن کے ساتھ کیا ہوگا اور یہ ضرور جانتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ کیا ہوگا ‘‘ وہ مالک کی ڈھیل کو آزادی اورکسی کی موت کو اپنا جنم دن سمجھ کر خود ساختہ شادیانوں کی آوازوں میں جو تازیانے برسا رہے ہیں وہ کم از کم یہ نہیں جانتے کہ کراماً کاتبین میں سے ایک کاتب ہے جو اْن کے گناہوں کی وہ کتاب مرتب کررہا ہے جو نعیم بھائی کے سامنے ہی پڑھ کر سنائی جائے گی کہ ’’ ہم نے تجھے اپنی بارگاہ میں بلایا اور اس نے ہمارے بلانے پر تیرے لیے یہ کچھ کہا ، اب تْو بتا اسے معاف کردوں یا اس کی تمام نیکیاں تجھے عنایت کردوں اور اگر اس پر بھی تو راضی نہیں تو بول میرے بندے کیا میں تیرے سارے گناہ اس کے گردن میں طوق بنا کر نہ پہنا دوں تاکہ اس سے بڑا مفلس دْنیا وآخرت میں کوئی نہ ہو۔‘‘

(دْنیا میں اس لیے کہ بْرائی کرنے والا جانتا ہی نہ تھا کہ وہ الفاظ ادا نہیں کررہا بلکہ نیکیاں ضایع کررہا ہے) نعیم بھائی کے سانحہ ارتحال پر طنزیہ جملے کسنے اور دل آزار الفاظ تخلیق کرنے والو ! بھول نا جانا کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور بے شک ہر نفس کو پلٹ کر اسی کی جانب لوٹنا ہے کہ جس کا وہ مال ہے ’’رب کے مال میں زباں سے تبّرے کی رال ٹپکا کر خیانت مت کرنا ، ورنہ امانتوں کو سپرد کرنے کی تعلیم عطا فرمانے والا تمہیں وہیں سپرد کرے گا جہاں کے لیے تم تخلیق کیے گئے ہو۔‘‘
 

جاسم محمد

محفلین
نیازی کو جنازے میں شریک ہونا چاہیئیے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں اپنی سگی ماں کے جنازے میں شرکت کرو یا نا کرو بےشک آخری دیدار تک نا کرو ۔
‏پر اپنے دوست کا جنازا ضرور پڑھو ۔
ورنہ یہ لبرل، لفافے تمہارا جینا حرام کر دیں گے۔
 
پاکستان میں اپنی سگی ماں کے جنازے میں شرکت کرو یا نا کرو بےشک آخری دیدار تک نا کرو ۔
‏پر اپنے دوست کا جنازا ضرور پڑھو ۔
ورنہ یہ لبرل، لفافے تمہارا جینا حرام کر دیں گے۔
واہ کیا لاجک ہے اپنے جگری یار کا جنازہ نہ پڑھنے کی۔ وہ شخص جس نے اپنی زندگی کے پچیس قیمتی سال اس کی نذر کردئیے اور اس کے پاس اس کی نماز جنازہ پڑھنے کی فرصت نہیں تھی، کیونکہ یہ اب لوٹوں میں گھرا ہوا ہے ( جو اس کے لیے اپنا پیسہ خرچ کرتے ہیں اور جواب میں پرمٹ پاتے ہیں۔
 
Top