پی ٹی آئی کے چیئرمین کھلی سماعت ہضم نہیں کر پا رہے، جسٹس وجیہہ
اسلام آباد (انصار عباسی) جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کی زیر قیادت پی ٹی آئی کے ٹریبونل نے پاکستان تحریک انصاف کی پوری قیادت کو بتایا ہے کہ پارٹی ’’نیا پاکستان‘‘ پر یقین رکھتی ہے لیکن پارٹی میں کوئی چیز ’’موجودہ پاکستان‘‘ سے مختلف نہیں۔ ٹریبونل کو تحلیل کرنے کے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے نوٹیفکیشن کا جواب دیتے ہوئے، جسٹس وجیہہ نے دوٹوک انداز میں یہ بنیادی سوال اٹھایا کہ کیا ہم نے بہتری کیلئے پاکستان کو تبدیل کرنے سے پہلے خود کو تبدیل کیا ہے؟ جس دن 26 فروری 2000 کو جنرل پرویز مشرف سپریم کورٹ میں کاٹ چھانٹ کر رہے تھے، اس وقت سرحد پار بھارت اپنا یومِ جمہوریہ منا رہا تھا، اسی طرح ہم بھی جس دن 25 اپریل 2015 کو اپنی پارٹی کا یومِ تاسیس منا رہے تھے اسی دن ہم نے اپنی ہی پارٹی کے الیکشن کو ختم کیا ہے۔ ٹریبونل کے فیصلوں کے حوالے سے پارٹی قیادت کی جانب سے اقدامات نہ کرنے کے حوالے سے جسٹس وجیہہ نے لکھا ہے کہ پی ٹی آئی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ آئندہ حکومت بنانے والی جماعت ہے۔ یہ نیا پاکستان پر یقین رکھتی ہے۔ یہ جماعت موجودہ پاکستان سے کس طرح مختلف ہے؟ وجیہہ الدین کی راہے کہ ٹریبونل کی کارگزاری بااثر افراد کے مفادات کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹریبونل نے چیئرمین کے ساتھ نجی ملاقات سے بھی انکار کیا ہے۔ ٹریبونل نے انہیں پیش ہونے کیلئے کہا تھا لیکن چیئرمین کو سات روز کا پیشگی نوٹس ملنے کے باوجود وہ پیش نہیں ہوئے۔ تاہم، چیئرمین چاہتے تھے کہ ٹریبونل اسلام آباد پہنچ کر دروازے پر انصاف فراہم کرے یا پھر ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ان کا موقف سنے۔ ٹریبونل کو یہ قبول نہیں۔ اس کے بدلے چیئرمین کو متبادل طریقہ کار بتایا گیا کہ وہ ٹریبونل کے اخراجات (یہ رسمی ہے کیونکہ ٹریبونل نے اپنے وجود کے بعد سے ادائیگی کے حصول کیلئے ایک روپیے کا بل پیش کیا اور نہ رقم کا کوئی دعویٰ کیا ہے) پر اپنی پسند کے کراچی کے کسی بھی ہوٹل میں تشریف لائیں اور وہاں کانفرنس حال میں عوامی سماعت میں پیش ہوں۔ لیکن چیئرمین کو عوامی سماعت ہضم نہیں ہو رہی۔ اس کے بعد انہوں نے چیئرمین عمران خان کو یاد دلایا کہ کس طرح ملک کی آزاد عدلیہ کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی ہے، پی ٹی آئی کی قیادت نے جس تبدیلی کا وعدہ کیا تھا اس کیلئے خود کو تبدیل نہیں کیا۔ وجیہہ الدین نے لکھا ہے کہ اسلئے کہ پاکستان کے سابقہ حکمران غلام محمد نے آزاد آئین ساز ادارے (آئین ساز اسمبلی) کو خاطر میں نہ لایا، اور اسے لیپٹ دیا۔ اس حوالے سے فیڈرل کورٹ (جس کی پیش رو سپریم کورٹ تھی) کو فتح کرکے غیر قانونی اقدام کا مظاہرہ کیا گیا۔ ایسی حربے زیادہ عرصہ تک کارآمد ثابت نہیں ہوتے۔ 1958 میں ایوب خان آئے اور سپریم کورٹ کو فتح کرکے اپنا قانونی جواز پیدا کیا (دوسو کیس)۔ 1978 میں جنرل ضیاء الحق نے اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بلیک میل کیا اور اپنی بچت کا راستہ ڈھونڈا (نصرت بھٹو کیس)۔ چونکہ ضیا الحق اپنے ہی منتخب کردہ ججوں سے مطمئن نہیں تھا اسلئے اس نے 1981 میں عبوری آئینی حکم (پی سی او) جاری کیا۔ پرویز مشرف نے 2000 میں اپنا پی سی او جاری کیا۔ 26 فروری 2000 کو پرویز مشرف نے 13 رکنی سپریم کورٹ کی کاٹ چھانٹ کر کے صرف 7 ججوں کو رکھا، اپنی پسند کے جج رکھے اور اپنا قانونی جواز بنائے رکھا (ظفر علی شاہ کیس)۔ جس طرح ضیا الحق کا 1981 میں اپنے ججوں کے حوالے سے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اسی طرح پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو سپریم کورٹ کو لپیٹنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے وہ تحریک شروع ہوئی جس میں چیئرمین عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف پیش پیش تھے۔ جس کے بعد عدلیہ کی بحالی عمل میں آئی۔ تاریخ کے ان واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے بہتری کیلئے پاکستان کو تبدیل کرنے کی بجائے خود کو تبدیل کیا ہے؟ انہوں نے عمران کان کی جانب سے ٹریبونل کو تحلیل کرنے کیلئے جاری کردہ احکامات کو ’’مبینہ نوٹیفکیشن‘‘ قرار دیا اور 22 مارچ 2015 کو نام نہاد کور کمیٹی کے 38ویں اجلاس کا حوالہ دیا جس میں ٹریبونل کے فیصلوں کو قبول کرتے ہوئے فیصلہ کیا تھا کہ تمام پارٹی عہدے تحلیل /منسوخ ہو چکے ہیں، پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن کیلئے آئندہ 48 گھنٹوں میں الیکشن کمشنر مقرر کیا جائے گا اور اس کے بعد نئے الیکشن کمشنر چیئرمین کے ساتھ مشاورت کے بعد الیکشن کمیٹی تشکیل دیں گے جس کے بعد الیکشن کے معاملات طے کیے جائیں گے۔ چیئرمین نے نامزدہ کردہ عہدیداروں کو ان کے عہدوں پر مقرر کر دیا ہے تاوقتیکہ الیکشن کمشنر کی جانب سے الیکشن شیڈول کا اعلان ہوجائے اور ایسا اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ پارٹی موجودہ بہائو اور تیزی سے تبدیل ہوتے سیاسی منظر نامے کا مقابلہ پیدا ہونے والے خلا سے نہیں کر سکتی۔ وجیہہ الدین نے نام نہاد کور کمیٹی کے نکات کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ایس جی (جہانگیر ترین) کو جاری کیے گئے اظہار وجوہ کے نوٹس پر چیئرمین نے کہا کہ ایس جی کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات چیئرمین کے فیصلوں کے عین مطابق تھے۔ کور کمیٹی نے قرار دیا کہ ایس جی نے کور کمیٹی سے مشاورت کے بعد چیئرمین کے فیصلوں کے مطابق اقدامات کیے اور صرف انہیں فیصلوں کے حوالے سے مورود الزام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ کور کمیٹی کے نکات کا جائزہ لیا جائے تو ٹریبونل کو 22 مارچ 2015 کو تحلیل نہیں کیا گیا کیونکہ درحقیقت 24 مارچ 2015 کو بغیر دستخط کے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے ذریعے اسے تحلیل کیا گیا۔ اس نوٹیفکیشن کو اب ایک اور نوٹیفکیشن سے تبدیل کر دیا گیا ہے جس میں چیف الیکشن کمشنر کے تقرر اور شرائط کار کا ذکر موجود ہے (جو اصل میں کافی دیر بعد جاری کیا گیا)۔ کیا ہمیں ریکارڈ کے ساتھ چھیڑ خانی کا سامنا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ سابقہ تاریخ میں (22 مارچ 2015) کو کی جانے والی تحلیل کا مقصد تھا: اس وقت غیر قانونی کور کمیٹی کو تحفظ دینا، بیک وقت پارٹی عہدیداروں کے عہدے تحلیل (جنہیں الیکشن ٹریبونل کی جانب سے ہٹایا گیا تھا) اور انہیں دوبارہ مقرر کرنا اور الیکشن ٹریبونل کی جانب سے مقرر کردہ تین ماہ کے وقت کو نظر انداز کرنا تھا۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ذاتی مفادات کا انتہائی حد تک تحفظ کیا گیا اور چار و ناچار ٹریبونل کے فیصلوں کو قبول کیا گیا۔ اس کے باوجود جہاں ممکن ہوا کاٹ چھانٹ کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ لہٰذا جس طرح ٹریبونل نے کہا تھا اسی طرح قائم مقام عہدیداروں کو مقرر نہیں کیا گیا۔ عدم احتساب کا سلسلہ 18 مارچ 2015 سے جاری ہے، تین ماہ کا الیکشن عرصہ تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ لیکن کسے پروا ہے، جن لوگوں نے الیکشن میں حصہ لینا تھا وہ مورچہ بند ہو چکے ہیں اور بظاہر غیر معینہ مدت تک کیلئے اپنے عہدوں پر ہی رہیں گے۔ جسٹس وجیہہ الدین نے دلیل دی کہ این اے 246 پر افسوس ناک شکست ہوئی ہے۔ کنٹونمنٹ کے الیکشن میں بھی ممکنہ طور پر کوئی خاص نتیجہ نہیں ہوگا۔ چونکہ ٹریبونل کے احکامات کو نہ مان کر خیبرپختونخوا کے پارٹی عہدیداروں نے قائم مقام عہدیداروں کو جگہ نہیں دی جس کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کیلئے نامزدگیوں سے ایسے نتائج کی پیشگوئی ہو سکتی ہے جو پریشان کن ہیں۔ ٹریبونل کے کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ٹریبونل اب تک کر کیا رہا ہے؟ یہ صرف اور صرف پارٹی کو جمہوری رنگ دے رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس میں کسی کے مفادات کو نقصان ہوا ہے۔ وہ موجودہ عہدیداران جنہیں قائم مقام عہدیداروں کیلئے جگہ چھوڑنا چاہئے تھی وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ دوسری جانب، ان میں میں کچھ عہدیداروں، جو عملدرآمد کے عمل میں شامل ہیں، کو ٹریبونل کی طرف سے نوٹس مل چکا ہے۔ تو اس سے نکلنے کا آسان حل کیا ہے؟ ٹریبونل کو فتح کرنا؟ ٹریبونل چیئرمین کے ساتھ کسی بھی طرح کی نجی ملاقات کو مسترد کرتا ہے ۔۔۔۔ تو اس سے باہر نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ وہی پرانا ڈھول بجا کر ٹریبونل کو تحلیل کرنا! جسٹس وجیہہ الدین نے مزید کہا کہ ٹریبونل نے اپنا کام خوش دلی سے شروع کیا تھا لیکن اس کی قدر نہیں کی گئی۔ ٹریبونل کے پاس دو متبادل راستے بچ جاتے ہیں: کم سے کم مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جائے اور جس طرف دریا کا رخ ہے اسی سمت میں آگے بڑھا جائے، تاکہ وہ اپنا کام مکمل کرلے، جو اب تک نامکمل ہے۔ جیسا کہ پہلے ہی اس بات کا مشاہدہ کیا جا چکا ہے، جوڈیشل ٹریبونلز کو عملدرآمد کا ایک میکنزم تفویض کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ ٹریبونل کا 17 اکتوبر 2014 کا آرڈر تھا جس میں عملدرآمد کی تاریخ دی گئی یعنی 18 مارچ 2015۔ چونکہ اس آرڈر پر عمل نہیں کیا گیا، ٹریبونل نے خود کو ملے ہوئے اختیارات کے تحت آخری آرڈر 18 مارچ 2015 کو جاری کیا۔ وجیہہ الدین نے ٹریبونل کے مشاہدات کا حوالہ دیا کہ ٹریبونل کو تحلیل کرنے کے متعلق مزید سوالات پر غور کرنا غیر ضروری لگتا ہے۔ معاملہ بہت ہی آسان ہے۔ اول، ٹریبونل نے اپنے 17 اکتوبر 2014 اور 18 مارچ 2015 کے آرڈر کے مطابق ایجنڈا ادھورا چھوڑا جس کی سمت واضح اور قابل شناخت تھی۔ با الفاظ دیگر ٹریبونل دونوں معاملات پر غور کر رہا تھا، ایک تو وہ جو اس کے سامنے تھا اور دوسرا اس پر عملدرآمد کرنے کا۔ اس طرح کی باڈی (ٹریبونل) کو اس طرح بے توقیر کرکے یا عجلت میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مزید برآں، ایک ایسے وقت میں جب ٹریبونل پارٹی کے معاملات دیکھ رہا تھا اور نہ تو کور کمیٹی تھی اور نہ ہی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور نہ ہی ٹریبونل کے اپنے علاوہ کسی اور کسی طرح کی تنظیم موجود تھی اور نہ ہی پارٹی چیئرمین، پارٹی کے مختلف بازو، قائمہ کمیٹی برائے نظم و ضبط اور احتساب کا کوئی وجود تھا۔ قائم مقام اور الیکشن کمیشن کا معاملہ اس کے بعد آنا تھا، جس میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ آیا قائم مقام عہدیداران منظر نامے میں شامل ہوئے ہیں یا نہیں (اس کا فیصلہ بھی ابھی ٹریبونل نے کرنا ہے) اور جہاں تک الیکشن کمیشن کا تعلق ہے تو ابھی تک صرف الیکشن کمشنر کو مقرر کیا گیا ہے جو انہیں دیئے گئے مشکل کام کا سامنا کر رہے ہیں۔ عدالتی اقدار کے مطابق، انتظامی لحاظ سے کوئی بھی مقدمہ اس وقت تک خارج یا ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک ججز اس کی سماعت کر رہے ہوں۔ اور یہی وہ معاملات ہیں جو ٹریبونل کے زیر غور ہیں۔ دوم، ایک اور اصول بھی موجود ہے جو ٹریبونل کی نام نہاد تحلیل پر صادر آتا ہے۔ یہ پوری کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے۔ یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ اگر اختیارات کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ بظاہر تو وہ درست نظر آئے لیکن درحقیقت بلاجواز ہو، تو اسے اختیارات کا استعمال ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں، باضابطہ طور پر ٹریبونل کی نام نہاد تحلیل کے متعلق کوئی آرڈر جاری نہیں کیا گیا، نوٹیفکیشن تو دور کی بات ہے۔ مزید یہ کہ اس پورے عمل کے پیچھے وہی چہرے کار فرما تھے جہیں ٹریبونل خود ہٹانے کا کہہ چکی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جن سے اجلاس میں مشاورت کی جا رہی تھی۔ اس میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ اس طرح کے اجلاس میں بھی ایسا دکھایا گیا کہ ٹریبونل کے احکامات کو قبول کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے، یہ صرف زبانی جمع خرچ تھا۔ کارروائی کوئی نہیں کی گئی۔ لہٰذا جس وقت ٹریبونل کی جانب سے کور کمیٹی اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی تحلیل کے آرڈر کو قبول کیا گیا، اسی وقت کور کمیٹی کا اجلاس ہوا اور پارٹی عہدیداران اپنے پرانے عہدوں پر بدستور قائم رہے۔ ٹریبونل کے احکامات پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی کارروائی نظر نہیں آئے گی۔ سوم، ٹریبونل کو تمام تر اختیارات پارٹی کے چیئرمین کی جانب سے تفویض کیے گئے تھے۔ یہ اختیارات نئے اور مکمل تھے۔ کیا اس پس منظر کے تحت، کیا یہ اختیارات دینے والا خود پیچھے ہٹ جائے گا؟ کیا یہ بات اتنی ہی واضح ہے؛ یہ دیکھا جانا ابھی باقی ہے اور ان کئی وجوہات میں سے ایک تھی جس کیلئے ٹریبونل نے چیئرمین کا موقف معلوم کرنے کیلئے وقت دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مختصر بات یہ ہے کہ ٹریبونل خود کو بھرپور طریقے سے فعال اور سرگرم محسوس کرتا ہے۔ بلاشبہ، چاہے کچھ بھی ہو، یہ ٹریبونل پارٹی کے وسیع تر مفاد میں کام کر رہا تھا اور اس بات کی کوشش کر رہا تھا کہ پارٹی کو اندر سے صاف کیا جائے تاکہ پارٹی قومی سطح پر کچھ کر دکھانے کے قابل ہو سکے۔ خود کو تفویض کردہ مینڈیٹ کے تحت ٹریبونل پارٹی کے وسیع تر مفاد میں کام جاری رکھے گا۔
اسلام آباد (انصار عباسی) جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کی زیر قیادت پی ٹی آئی کے ٹریبونل نے پاکستان تحریک انصاف کی پوری قیادت کو بتایا ہے کہ پارٹی ’’نیا پاکستان‘‘ پر یقین رکھتی ہے لیکن پارٹی میں کوئی چیز ’’موجودہ پاکستان‘‘ سے مختلف نہیں۔ ٹریبونل کو تحلیل کرنے کے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے نوٹیفکیشن کا جواب دیتے ہوئے، جسٹس وجیہہ نے دوٹوک انداز میں یہ بنیادی سوال اٹھایا کہ کیا ہم نے بہتری کیلئے پاکستان کو تبدیل کرنے سے پہلے خود کو تبدیل کیا ہے؟ جس دن 26 فروری 2000 کو جنرل پرویز مشرف سپریم کورٹ میں کاٹ چھانٹ کر رہے تھے، اس وقت سرحد پار بھارت اپنا یومِ جمہوریہ منا رہا تھا، اسی طرح ہم بھی جس دن 25 اپریل 2015 کو اپنی پارٹی کا یومِ تاسیس منا رہے تھے اسی دن ہم نے اپنی ہی پارٹی کے الیکشن کو ختم کیا ہے۔ ٹریبونل کے فیصلوں کے حوالے سے پارٹی قیادت کی جانب سے اقدامات نہ کرنے کے حوالے سے جسٹس وجیہہ نے لکھا ہے کہ پی ٹی آئی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ آئندہ حکومت بنانے والی جماعت ہے۔ یہ نیا پاکستان پر یقین رکھتی ہے۔ یہ جماعت موجودہ پاکستان سے کس طرح مختلف ہے؟ وجیہہ الدین کی راہے کہ ٹریبونل کی کارگزاری بااثر افراد کے مفادات کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹریبونل نے چیئرمین کے ساتھ نجی ملاقات سے بھی انکار کیا ہے۔ ٹریبونل نے انہیں پیش ہونے کیلئے کہا تھا لیکن چیئرمین کو سات روز کا پیشگی نوٹس ملنے کے باوجود وہ پیش نہیں ہوئے۔ تاہم، چیئرمین چاہتے تھے کہ ٹریبونل اسلام آباد پہنچ کر دروازے پر انصاف فراہم کرے یا پھر ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ان کا موقف سنے۔ ٹریبونل کو یہ قبول نہیں۔ اس کے بدلے چیئرمین کو متبادل طریقہ کار بتایا گیا کہ وہ ٹریبونل کے اخراجات (یہ رسمی ہے کیونکہ ٹریبونل نے اپنے وجود کے بعد سے ادائیگی کے حصول کیلئے ایک روپیے کا بل پیش کیا اور نہ رقم کا کوئی دعویٰ کیا ہے) پر اپنی پسند کے کراچی کے کسی بھی ہوٹل میں تشریف لائیں اور وہاں کانفرنس حال میں عوامی سماعت میں پیش ہوں۔ لیکن چیئرمین کو عوامی سماعت ہضم نہیں ہو رہی۔ اس کے بعد انہوں نے چیئرمین عمران خان کو یاد دلایا کہ کس طرح ملک کی آزاد عدلیہ کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی ہے، پی ٹی آئی کی قیادت نے جس تبدیلی کا وعدہ کیا تھا اس کیلئے خود کو تبدیل نہیں کیا۔ وجیہہ الدین نے لکھا ہے کہ اسلئے کہ پاکستان کے سابقہ حکمران غلام محمد نے آزاد آئین ساز ادارے (آئین ساز اسمبلی) کو خاطر میں نہ لایا، اور اسے لیپٹ دیا۔ اس حوالے سے فیڈرل کورٹ (جس کی پیش رو سپریم کورٹ تھی) کو فتح کرکے غیر قانونی اقدام کا مظاہرہ کیا گیا۔ ایسی حربے زیادہ عرصہ تک کارآمد ثابت نہیں ہوتے۔ 1958 میں ایوب خان آئے اور سپریم کورٹ کو فتح کرکے اپنا قانونی جواز پیدا کیا (دوسو کیس)۔ 1978 میں جنرل ضیاء الحق نے اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بلیک میل کیا اور اپنی بچت کا راستہ ڈھونڈا (نصرت بھٹو کیس)۔ چونکہ ضیا الحق اپنے ہی منتخب کردہ ججوں سے مطمئن نہیں تھا اسلئے اس نے 1981 میں عبوری آئینی حکم (پی سی او) جاری کیا۔ پرویز مشرف نے 2000 میں اپنا پی سی او جاری کیا۔ 26 فروری 2000 کو پرویز مشرف نے 13 رکنی سپریم کورٹ کی کاٹ چھانٹ کر کے صرف 7 ججوں کو رکھا، اپنی پسند کے جج رکھے اور اپنا قانونی جواز بنائے رکھا (ظفر علی شاہ کیس)۔ جس طرح ضیا الحق کا 1981 میں اپنے ججوں کے حوالے سے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اسی طرح پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو سپریم کورٹ کو لپیٹنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے وہ تحریک شروع ہوئی جس میں چیئرمین عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف پیش پیش تھے۔ جس کے بعد عدلیہ کی بحالی عمل میں آئی۔ تاریخ کے ان واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے بہتری کیلئے پاکستان کو تبدیل کرنے کی بجائے خود کو تبدیل کیا ہے؟ انہوں نے عمران کان کی جانب سے ٹریبونل کو تحلیل کرنے کیلئے جاری کردہ احکامات کو ’’مبینہ نوٹیفکیشن‘‘ قرار دیا اور 22 مارچ 2015 کو نام نہاد کور کمیٹی کے 38ویں اجلاس کا حوالہ دیا جس میں ٹریبونل کے فیصلوں کو قبول کرتے ہوئے فیصلہ کیا تھا کہ تمام پارٹی عہدے تحلیل /منسوخ ہو چکے ہیں، پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن کیلئے آئندہ 48 گھنٹوں میں الیکشن کمشنر مقرر کیا جائے گا اور اس کے بعد نئے الیکشن کمشنر چیئرمین کے ساتھ مشاورت کے بعد الیکشن کمیٹی تشکیل دیں گے جس کے بعد الیکشن کے معاملات طے کیے جائیں گے۔ چیئرمین نے نامزدہ کردہ عہدیداروں کو ان کے عہدوں پر مقرر کر دیا ہے تاوقتیکہ الیکشن کمشنر کی جانب سے الیکشن شیڈول کا اعلان ہوجائے اور ایسا اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ پارٹی موجودہ بہائو اور تیزی سے تبدیل ہوتے سیاسی منظر نامے کا مقابلہ پیدا ہونے والے خلا سے نہیں کر سکتی۔ وجیہہ الدین نے نام نہاد کور کمیٹی کے نکات کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ایس جی (جہانگیر ترین) کو جاری کیے گئے اظہار وجوہ کے نوٹس پر چیئرمین نے کہا کہ ایس جی کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات چیئرمین کے فیصلوں کے عین مطابق تھے۔ کور کمیٹی نے قرار دیا کہ ایس جی نے کور کمیٹی سے مشاورت کے بعد چیئرمین کے فیصلوں کے مطابق اقدامات کیے اور صرف انہیں فیصلوں کے حوالے سے مورود الزام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ کور کمیٹی کے نکات کا جائزہ لیا جائے تو ٹریبونل کو 22 مارچ 2015 کو تحلیل نہیں کیا گیا کیونکہ درحقیقت 24 مارچ 2015 کو بغیر دستخط کے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے ذریعے اسے تحلیل کیا گیا۔ اس نوٹیفکیشن کو اب ایک اور نوٹیفکیشن سے تبدیل کر دیا گیا ہے جس میں چیف الیکشن کمشنر کے تقرر اور شرائط کار کا ذکر موجود ہے (جو اصل میں کافی دیر بعد جاری کیا گیا)۔ کیا ہمیں ریکارڈ کے ساتھ چھیڑ خانی کا سامنا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ سابقہ تاریخ میں (22 مارچ 2015) کو کی جانے والی تحلیل کا مقصد تھا: اس وقت غیر قانونی کور کمیٹی کو تحفظ دینا، بیک وقت پارٹی عہدیداروں کے عہدے تحلیل (جنہیں الیکشن ٹریبونل کی جانب سے ہٹایا گیا تھا) اور انہیں دوبارہ مقرر کرنا اور الیکشن ٹریبونل کی جانب سے مقرر کردہ تین ماہ کے وقت کو نظر انداز کرنا تھا۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ذاتی مفادات کا انتہائی حد تک تحفظ کیا گیا اور چار و ناچار ٹریبونل کے فیصلوں کو قبول کیا گیا۔ اس کے باوجود جہاں ممکن ہوا کاٹ چھانٹ کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ لہٰذا جس طرح ٹریبونل نے کہا تھا اسی طرح قائم مقام عہدیداروں کو مقرر نہیں کیا گیا۔ عدم احتساب کا سلسلہ 18 مارچ 2015 سے جاری ہے، تین ماہ کا الیکشن عرصہ تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ لیکن کسے پروا ہے، جن لوگوں نے الیکشن میں حصہ لینا تھا وہ مورچہ بند ہو چکے ہیں اور بظاہر غیر معینہ مدت تک کیلئے اپنے عہدوں پر ہی رہیں گے۔ جسٹس وجیہہ الدین نے دلیل دی کہ این اے 246 پر افسوس ناک شکست ہوئی ہے۔ کنٹونمنٹ کے الیکشن میں بھی ممکنہ طور پر کوئی خاص نتیجہ نہیں ہوگا۔ چونکہ ٹریبونل کے احکامات کو نہ مان کر خیبرپختونخوا کے پارٹی عہدیداروں نے قائم مقام عہدیداروں کو جگہ نہیں دی جس کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کیلئے نامزدگیوں سے ایسے نتائج کی پیشگوئی ہو سکتی ہے جو پریشان کن ہیں۔ ٹریبونل کے کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ٹریبونل اب تک کر کیا رہا ہے؟ یہ صرف اور صرف پارٹی کو جمہوری رنگ دے رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس میں کسی کے مفادات کو نقصان ہوا ہے۔ وہ موجودہ عہدیداران جنہیں قائم مقام عہدیداروں کیلئے جگہ چھوڑنا چاہئے تھی وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ دوسری جانب، ان میں میں کچھ عہدیداروں، جو عملدرآمد کے عمل میں شامل ہیں، کو ٹریبونل کی طرف سے نوٹس مل چکا ہے۔ تو اس سے نکلنے کا آسان حل کیا ہے؟ ٹریبونل کو فتح کرنا؟ ٹریبونل چیئرمین کے ساتھ کسی بھی طرح کی نجی ملاقات کو مسترد کرتا ہے ۔۔۔۔ تو اس سے باہر نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ وہی پرانا ڈھول بجا کر ٹریبونل کو تحلیل کرنا! جسٹس وجیہہ الدین نے مزید کہا کہ ٹریبونل نے اپنا کام خوش دلی سے شروع کیا تھا لیکن اس کی قدر نہیں کی گئی۔ ٹریبونل کے پاس دو متبادل راستے بچ جاتے ہیں: کم سے کم مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جائے اور جس طرف دریا کا رخ ہے اسی سمت میں آگے بڑھا جائے، تاکہ وہ اپنا کام مکمل کرلے، جو اب تک نامکمل ہے۔ جیسا کہ پہلے ہی اس بات کا مشاہدہ کیا جا چکا ہے، جوڈیشل ٹریبونلز کو عملدرآمد کا ایک میکنزم تفویض کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ ٹریبونل کا 17 اکتوبر 2014 کا آرڈر تھا جس میں عملدرآمد کی تاریخ دی گئی یعنی 18 مارچ 2015۔ چونکہ اس آرڈر پر عمل نہیں کیا گیا، ٹریبونل نے خود کو ملے ہوئے اختیارات کے تحت آخری آرڈر 18 مارچ 2015 کو جاری کیا۔ وجیہہ الدین نے ٹریبونل کے مشاہدات کا حوالہ دیا کہ ٹریبونل کو تحلیل کرنے کے متعلق مزید سوالات پر غور کرنا غیر ضروری لگتا ہے۔ معاملہ بہت ہی آسان ہے۔ اول، ٹریبونل نے اپنے 17 اکتوبر 2014 اور 18 مارچ 2015 کے آرڈر کے مطابق ایجنڈا ادھورا چھوڑا جس کی سمت واضح اور قابل شناخت تھی۔ با الفاظ دیگر ٹریبونل دونوں معاملات پر غور کر رہا تھا، ایک تو وہ جو اس کے سامنے تھا اور دوسرا اس پر عملدرآمد کرنے کا۔ اس طرح کی باڈی (ٹریبونل) کو اس طرح بے توقیر کرکے یا عجلت میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مزید برآں، ایک ایسے وقت میں جب ٹریبونل پارٹی کے معاملات دیکھ رہا تھا اور نہ تو کور کمیٹی تھی اور نہ ہی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور نہ ہی ٹریبونل کے اپنے علاوہ کسی اور کسی طرح کی تنظیم موجود تھی اور نہ ہی پارٹی چیئرمین، پارٹی کے مختلف بازو، قائمہ کمیٹی برائے نظم و ضبط اور احتساب کا کوئی وجود تھا۔ قائم مقام اور الیکشن کمیشن کا معاملہ اس کے بعد آنا تھا، جس میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ آیا قائم مقام عہدیداران منظر نامے میں شامل ہوئے ہیں یا نہیں (اس کا فیصلہ بھی ابھی ٹریبونل نے کرنا ہے) اور جہاں تک الیکشن کمیشن کا تعلق ہے تو ابھی تک صرف الیکشن کمشنر کو مقرر کیا گیا ہے جو انہیں دیئے گئے مشکل کام کا سامنا کر رہے ہیں۔ عدالتی اقدار کے مطابق، انتظامی لحاظ سے کوئی بھی مقدمہ اس وقت تک خارج یا ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک ججز اس کی سماعت کر رہے ہوں۔ اور یہی وہ معاملات ہیں جو ٹریبونل کے زیر غور ہیں۔ دوم، ایک اور اصول بھی موجود ہے جو ٹریبونل کی نام نہاد تحلیل پر صادر آتا ہے۔ یہ پوری کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے۔ یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ اگر اختیارات کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ بظاہر تو وہ درست نظر آئے لیکن درحقیقت بلاجواز ہو، تو اسے اختیارات کا استعمال ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں، باضابطہ طور پر ٹریبونل کی نام نہاد تحلیل کے متعلق کوئی آرڈر جاری نہیں کیا گیا، نوٹیفکیشن تو دور کی بات ہے۔ مزید یہ کہ اس پورے عمل کے پیچھے وہی چہرے کار فرما تھے جہیں ٹریبونل خود ہٹانے کا کہہ چکی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جن سے اجلاس میں مشاورت کی جا رہی تھی۔ اس میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ اس طرح کے اجلاس میں بھی ایسا دکھایا گیا کہ ٹریبونل کے احکامات کو قبول کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے، یہ صرف زبانی جمع خرچ تھا۔ کارروائی کوئی نہیں کی گئی۔ لہٰذا جس وقت ٹریبونل کی جانب سے کور کمیٹی اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی تحلیل کے آرڈر کو قبول کیا گیا، اسی وقت کور کمیٹی کا اجلاس ہوا اور پارٹی عہدیداران اپنے پرانے عہدوں پر بدستور قائم رہے۔ ٹریبونل کے احکامات پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی کارروائی نظر نہیں آئے گی۔ سوم، ٹریبونل کو تمام تر اختیارات پارٹی کے چیئرمین کی جانب سے تفویض کیے گئے تھے۔ یہ اختیارات نئے اور مکمل تھے۔ کیا اس پس منظر کے تحت، کیا یہ اختیارات دینے والا خود پیچھے ہٹ جائے گا؟ کیا یہ بات اتنی ہی واضح ہے؛ یہ دیکھا جانا ابھی باقی ہے اور ان کئی وجوہات میں سے ایک تھی جس کیلئے ٹریبونل نے چیئرمین کا موقف معلوم کرنے کیلئے وقت دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مختصر بات یہ ہے کہ ٹریبونل خود کو بھرپور طریقے سے فعال اور سرگرم محسوس کرتا ہے۔ بلاشبہ، چاہے کچھ بھی ہو، یہ ٹریبونل پارٹی کے وسیع تر مفاد میں کام کر رہا تھا اور اس بات کی کوشش کر رہا تھا کہ پارٹی کو اندر سے صاف کیا جائے تاکہ پارٹی قومی سطح پر کچھ کر دکھانے کے قابل ہو سکے۔ خود کو تفویض کردہ مینڈیٹ کے تحت ٹریبونل پارٹی کے وسیع تر مفاد میں کام جاری رکھے گا۔