ابن جمال
محفلین
مطلب سرکاٹنے سے زیادہ اہم سر سے فٹبال کھیلناہے۔پاک فوج مخالفین کے سر کاٹ کر فٹ بال نہیں کھیلتی۔ یہ فرق ہے۔
مطلب سرکاٹنے سے زیادہ اہم سر سے فٹبال کھیلناہے۔پاک فوج مخالفین کے سر کاٹ کر فٹ بال نہیں کھیلتی۔ یہ فرق ہے۔
ہماری فوج سر سے نہیں بلکہ روح اور جسم دونوں سے فٹ بال کھیلتی ہے۔پاک فوج مخالفین کے سر کاٹ کر فٹ بال نہیں کھیلتی۔ یہ فرق ہے۔
بھاگ لگے رہن۔۔۔
عاصمہ شیرازی صحافی
بات بہت آگے نکل گئی ہے، وہاں جہاں سرا ہاتھ نہیں آ رہا۔ ڈر ہے کہ دہلیز سے لگا بیٹھا ہے، خوف ہے گھر کر رہا ہے، اندیشے، وسوسے اور خیال جان نہیں چھوڑتے۔۔۔ سچ کی ہمت نہیں اور جھوٹ کی عادت نہیں۔۔۔ سر پھرے مصلحت اور انقلابی مفاد کا بھیس بدل رہے ہیں۔۔۔
جناب والا۔۔۔ مائی باپ! آپ کی دستار سلامت، آپ کی عزت قائم اور آپ کا مرتبہ بلند رہے۔۔۔ جان کی امان ہو تو رعایا کچھ عرضیاں لکھنا چاہتی ہے۔
جناب عالی تھانیدار صاحب! آپ کا اقبال بلند ہو، کیسا ماحول تھا ایک زمانہ تھا کہ کسی کی جرات نہیں تھی آپ کے سامنے بولنے کی، بات کرنے کی، آواز اٹھانے کی، جو آپ کہتے تھے وہی ہوتا تھا، گاؤں کا ہر قانون، ہر کام آپ کے کہنے سے تشکیل پاتا تھا، کس کو اندر کرانا ہے، کس کو باہر لانا ہے، کس پر پرچہ کرانا ہے، کس کو پھینٹی لگانی ہے سب آپ کے اشارہ آبرو سے طے پاتا تھا۔
تھانیدار صاحب! ماجے کی بھینس آپ نے کھلوائی، چوری مانے پر ڈلوائی اور مار دونوں کے ساتھ کمی کمینوں نے بھی کھائی، پھر آپ نے صلح بھی کرائی۔۔۔ کیسی واہ واہ ہوئی۔۔۔
جناب کا اقبال بلند ہو۔۔ ممولے کو شاہین سے لڑانا ہو، چیونٹی کو ہاتھی کے مقابل کھڑا کرنا ہو اور سانپ کو نیولے سے بھڑوانا ہو، جناب کی لیاقت یکتا ہے۔ مجال ہے کہ چڑیا آپ کے تھانے کی حدود میں آپ کی اجازت کے بغیر پر مار جائے یا سائبیریا کے پرندے سردیوں میں آپ کی اجازت کے بغیر چھٹیاں گزارنے یہاں آ سکیں، آپ کے سامنے کون کھڑا ہو سکتا ہے۔۔۔۔
مگر جناب! جان کی امان پاؤں تو ایک گزارش کرنا تھی۔۔ اب حالات وہ نہیں رہے، بیٹے کی جوتی پیر میں پوری آ جائے تو ذرا احتیاط کرنی چاہیے۔۔
جناب! آپ کی ٹیکنیک وقت کے ساتھ ساتھ تھوڑی پرانی ہو رہی ہے، نئی نسل بڑی خراب ہے، بڑی لمبی زبان اور بڑی گھُوڑی یاداشت رکھتی ہے، پہلے والے لوگوں جیسی نہیں، شہباز کو ممولا اور سردار کو سرباز دکھاتی ہے، بڑے جذبے میں ہے جی۔۔۔ کسی کو کچھ سمجھتی ہی نہیں، دنیا ہاتھ میں لیے پھرتی ہے، دھمکی اور دھونس کو دلیل اور دانش میں بدل دیتی ہے، نو گز لمبی زبان ہے ہر بات کا تڑ تڑ جواب دیتی ہے، ہاں آپ نے گالیوں شالیوں سے قابو کرنے کی کوشش کی ہے مگر یہ طریقہ زیادہ دن نہیں چلے گا۔
جناب عالی! میری مانیں یا تو پرانوں پر گزارہ کر لیں یا ان کو میز پر لائیں۔۔۔ آس پاس کے گاؤں ان کو شہ دے رہے ہیں۔ یہ نئے نوجوان نہ تو قابو آتے ہیں، نہ ڈرتے ہیں، کچھ آپ کی تکنیک بھی پرانی ہے اور کچھ یہ سمجھ دار بھی بہت ہیں۔
سرکار! علاقے میں چودھراہٹ کے لیے ان کو اعتماد دیں، کچھ سنیں، کچھ سنائیں، کچھ لیں اور کچھ دیں۔۔۔ ورنہ یہ سارے ارد گرد اکٹھے ہو گئے تو گاؤں میں خدانخواستہ کوئی سانحہ ہی نہ ہو جائے۔
باقی تھانیدار صاحب ! آپ نے دنیا دیکھی ہے اور دنیا نے آپ کو بھی دیکھ لیا ہے ۔۔۔۔بھاگ لگے رہن تے سر سلامت رہن ۔۔۔
جنابِ وقار ایک نہایت حسین، خوبرو، قدآور اور لڑائی بھڑائی کے فن میں یکتا قسم کے نوجوان ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ تند خو، بھڑکیلے، پنگے باز اور کمال کا سازشی ذہن رکھنے والے بھی ہیں۔ ہمارے گاؤں کے لوگوں نے انھیں بطور محافظ رکھا ہوا ہے تاکہ دوسرے یا تیسرے دشمن گاؤں والے ان کی فصلیں اجاڑ،درخت اکھاڑ اور مال مویشی ہانک نا لے جائیں۔بطور محافظ فرائض سنبھالنے سے لیکر آج تک ہمہ وقت کسی نا کسی ہمسائے گاؤں والے سے پنگے لیے رکھنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ گو ان ہمسائے گاؤں والوں کے لمبردار و دیگر مشیران وغیرہ اور ان کے محافظ بھی اسی قبیل کے ہیں لیکن ان سب کی آپسی چخ چخ سے ہر دو گاؤں کے باشندے شدید قسم کے نالاں و بیزار ہیں۔
بنیادی طور پر جاگیردارانہ ذہنیت رکھتے ہیں لیکن انھیں ساتھ ہی ساتھ صنعتکار بننے کا شوق بھی ہے۔ کم و بیش گزشتہ تین دہائیوں سے جاگیرداری کے طرف کم اور بڑے بڑے رقبوں پر جائز ناجائز قبضہ کر کے لمبے چوڑے گھر بنانے کی طرف زیادہ دھیان دئیے ہوئے ہیں۔
روپیہ پیسہ، دھمکی، بلیک میلنگ جیسے حربے استعمال کر کے انھوں نے گاؤں میں اپنے لیے ہمدرد، لکھت باز، کہانی باز، نقیب و رنگ برنگے بینڈ باجے والے بھی چھوڑ رکھے ہیں جو ہمہ وقت ان کی بہادری اور شجاعت کے قصہ خوانی بازار گاؤں کے ہر چوک میں سجائے رکھتے ہیں۔
جو کوئی بھی ان کے اس طرز عمل پر رتی برابر بھی اعتراض کرے یا نجی محفلوں میں ان کے بارے میں اچھی رائے نا رکھے ، اسے سبقِ شدید سکھانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
بھائی میں آپ کی امیدیں توڑنا نہیں چاہتا۔ لیکن میری دانست میں یہ ڈھول سپاہیا وائرس کی طرح ملک کی جڑوں میں بیٹھ چکا ہے۔ اس کو اکھاڑ پھینکنے (آپریشن) کیلئے مشرقی پاکستان والی تاریخ دہرانی پڑے گی۔ کیونکہ ہر قسم کی طاقت اور اقتدار کا پوری انسانی تاریخ میں ایک ہی اصول رہا ہے۔ یہ کبھی پلیٹ میں ڈال کر پیش نہیں کی جاتی۔ ہمیشہ چھیننی پڑتی ہےمیری دانست میں یہ ٹرانزیشن فیز ہے۔ مجھے امید ہے ہم اپنی حیاتی میں ہی آزادی حاصل کر لیں گے یا ہمارے بچے کم از کم آزادی کا سانس ضرور لیں گے!
درست، اسی لیے کہا ہے کہ ٹرانزیشن فیز ہے بلکہ اس فیز کی بھی ابتدا ہے۔بھائی میں آپ کی امیدیں توڑنا نہیں چاہتا۔ لیکن میری دانست میں یہ ڈھول سپاہیا وائرس کی طرح ملک کی جڑوں میں بیٹھ چکا ہے۔ اس کو اکھاڑ پھینکنے (آپریشن) کیلئے مشرقی پاکستان والی تاریخ دہرانی پڑے گی۔ کیونکہ ہر طاقت اور اقتدار کا پوری انسانی تاریخ میں ایک ہی اصول ہے۔ یہ پلیٹ میں ڈال کر پیش نہیں کی جاتی۔ چھیننی پڑتی ہے
کل رات کو مہمند ایجنسی میں ایک فوجی لٹیرے کو گھر میں گھسنے اور چاردیورای کی عزت پامال کرنے پر خاتون نے وردی والے کو پستول سے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ان گھرانوں کے علاوہ جن کا کوئی بچہ فوج میں ہے، یا وہ علاقے جو انگریز دور ہی سے غلام ابن غلام چلتے آرہے ہیں، باقی پورے خیبرپختون خوا میں فوج کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔
ایک سبق آموز بات یہ ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد عوام فوج کے آنے پر خوش تھی لیکن ان کا فرعونیت، ہتک آمیز اور ظلم و تشدد پر مبنی رویہ اور تجربات دیکھ کر وہ ساری آرزو نفرت میں بدل دی گئی۔ ان بے چاروں کو بھی جو طالبان کے ساتھ صرف ایک بار بھی وقت گزاری کے لیے بیٹھے ہوں، کو ایسی ایسی سزائیں دی گئیں کہ جس کا سوچنا محال ہے۔
پشتون قوم میں غضب یہ ہے کہ وہ سادہ لوح اور ہنس مکھ بہت ہے لیکن یہی اچھائی ان کے لیے عذاب بنادی جاتی ہے۔ لیکن جو عذاب بناتا ہے اسے خود پھر معافی بہت کم ملتی ہے۔ یہی پشتون تاریخ ہے۔
فوج کے خلاف پکنے والا لاوا شائد اگلی نسل کے بعد ہی ٹھنڈا ہوسکے وگرنہ نوجوان سر پر کفن باندھنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اوپر سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کثرت اور پختہ سیاسی شعور جلتی پر تیل کا کام دے رہا ہے۔
یہ جاہل اور بلیک میل مافیا ملک کو توڑنے پر ہی راضی نظر آتی ہے۔ جس پر انہیں میں موجود پاکستان دشمن عناصر کام کررہے ہیں۔
قابل مذمت رویہ ہے۔ فوج کو بارڈر تک ہی محدود رہنا چاہئے۔ جو ان کا کام ہے۔کل رات کو مہمند ایجنسی میں ایک فوجی لٹیرے کو گھر میں گھسنے اور چاردیورای کی عزت پامال کرنے پر خاتون نے وردی والے کو جہنم واصل کردیا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی غیر جانبدارانہ تاریخ آپ ضرور پڑھیں۔ سچ کا ادراک اور تاریخ سے سبق سیکھنا بہت ضروری ہے۔ شاہد امین نے اس پہ بہت خوبصورت نقشہ کھینچا ہے۔ میری اتنی سے خواہش ہے کہ یہ ملک تا قیامت سلامت اور آزاد رہے۔ویسے سوچ رہا ہوں جب اتنے آزاد دور میں اور آزاد علاقوں میں یہ کمینگی انتہا پر ہے تو بنگلہ دیش کی کہانیاں جھوٹ نہیں ہوسکتیں۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار کون؟مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی غیر جانبدارانہ تاریخ آپ ضرور پڑھیں۔ سچ کا ادراک اور تاریخ سے سبق سیکھنا بہت ضروری ہے۔ شاہد امین نے اس پہ بہت خوبصورت نقشہ کھینچا ہے۔ میری اتنی سے خواہش ہے کہ یہ ملک تا قیامت سلامت اور آزاد رہے۔
یہ میں پڑھ چکا ہوں حضور! مزہ نہیں آیا۔
مارشل لا ایڈمنسٹر بھٹو کے پاس اس وقت تمام اختیارات موجود تھے۔ اگر وہ چاہتے تو ملک توڑنے والے جرنیلوں کو الٹا لٹکا کر نشان عبرت بنا دیتے۔ لیکن چونکہ اس سازش میں وہ خود بھی شامل تھے اس لئے غلامی کا یہ طوق مغربی پاکستان کو پہنا کر دنیا سے رخصت کر دئے گئے۔یہ میں پڑھ چکا ہوں حضور! مزہ نہیں آیا۔
کسی بھی تقسیم کے حالات ایک دن میں پیدا نہیں ہوتے۔ خود برصغیر پاک و ہند بھی ایک دن میں تقسیم نہیں ہو گیا تھا، امریکہ کی آزادی کی تاریخ بھی یہی سبق دیتی ہے لیکن ہم نے تاریخ سے نہ سیکھنے کی قسم کھائی ہے۔مارشل لا ایڈمنسٹر بھٹو کے پاس اس وقت تمام اختیارات موجود تھے۔ اگر وہ چاہتے تو ملک توڑنے والے جرنیلوں کو الٹا لٹکا کر نشان عبرت بنا دیتے۔ لیکن چونکہ اس سازش میں وہ خود بھی شامل تھے اس لئے غلامی کا یہ طوق مغربی پاکستان کو پہنا کر دنیا سے رخصت کر دئے گئے۔
ٹھیک ہے مشرقی پاکستان ایک دن میں تقسیم نہیں ہوا تھا۔ البتہ اس کے جو چنیدہ چنیدہ ذمہ داران تھے ان کو کیفر کردار تک پہنچانا کس کا کام تھا۔ تاکہ آئندہ یہ تاریخ نہ دہرائی جاتی؟ بھٹو نے پہلے خود ہی ذمہ داران کے تعین کیلئے آزاد و خودمختار کمیشن بنایا اور پھر خودہی ان ذمہ داران کے خلاف کاروائی مکمل نہیں کی۔کسی بھی تقسیم کے حالات ایک دن میں پیدا نہیں ہوتے۔
بھٹو کو پیپلز پارٹی نے نہیں بلکہ خاکیان نے خود امر کیا ہے۔لیکن کل بھی بھٹو زندہ تھا۔ آج بھی بھٹو زندہ ہے!
He was concerned because he might have lost his position and so is today's PTI.he was concerned that it would demoralize the military and might trigger unrest therein
یعنی بھٹو بنیادی طور پر ڈرپوک اور مفاد پرست انسان تھا۔ جب اسے اپنی قوم و ملک کے مستقبل کی خاطر حکومت کی قربانی دینی چاہئے تھی اس وقت نہیں دی۔ اور اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد تختہ الٹتے ہی پھانسی قبول کر لی۔He was concerned because he might lost his position and so is today's PTI.
اس کو معلوم نہیں تھا کہ بعد میں اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ حالات و واقعات اسے اس طرف لے گئے۔ بھٹو کے مفاد پرست ہونے سے جمہوریت کا اور آمریت کے آنے کا تعلق؟ اوائل میں جمہوریت کمزور ہی ہوتی ہے لیکن اگر نظام چلتا رہے اور عوام کو آزادی "بخشی" جائے تو نظام بتدریج ارتقاء کے مراحل طے کرتا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک نظام آپ آج نافذ کریں اور فوراً ہی آپ کو پھل دینا شروع کر دے۔ نظام کو پھلنے پھولنے کے لیے آزدی بھی چاہیے اور آکسیجن بھی اور اس کے کانٹوں کو بھی سہنا پڑتا ہے۔ تب جا کر نظام پھل دینے کے قابل بنتا ہے۔ بھٹو ہو، نواز شریف ہو یا زرداری ہو ان کا قصور اپنی جگہ ضرور ہے لیکن آکسیجن کی فراہمی کس نے روکی؟ آزادی پہ قدغن کس نے لگائے؟ بار بار اسے کس نے تراشا؟ اور آخر میں یہ جواز پیش کر کے کہ یہ تو پھل دے ہی نہیں ہو سکتا تو اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے، انتہائی گھٹیا اور قابلِ مذمت ہے۔یعنی بھٹو بنیادی طور پر ڈرپوک اور مفاد پرست انسان تھا۔ جب اسے اپنی قوم و ملک کے مستقبل کی خاطر حکومت کی قربانی دینی چاہئے تھی اس وقت نہیں دی۔ اور اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد تختہ الٹتے ہی پھانسی قبول کر لی۔
بھٹو کو سب معلوم تھا۔ ممکنہ مارشل لا سے بچنے کیلیے اس نے فیڈرل سیکورٹی فورس بنا رکھی تھی۔ جسے سیاسی مخالفین کو ڈرانے، دھمکانے، تشدد اور قتل تک کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔اس کو معلوم نہیں تھا کہ بعد میں اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ حالات و واقعات اسے اس طرف لے گئے۔ بھٹو کے مفاد پرست ہونے سے جمہوریت کی آمریت کے آنے کا تعلق؟