پی ٹی وی کے 20 سال - قابل فخر فنکاروں کی محفل

طالوت

محفلین
پی ٹی وی کی ساٹھ کی دہائی کے وسط سے نوے کی دہائی تک کے ڈرامے، گیت ، غزلیں ، مزاحیہ شوز، ڈاکیومینٹریز غرض جو کچھ بھی پیش کیا جاتا رہا وہ ایسا انمول خزانہ ہے جسے کبھی بھولا نہیں جا سکتا ۔ ذیل میں چند وڈیوز پیش ہیں جن میں پاکستان ٹیلی ویژن کی بیسویں سالگرہ پر ان خوبصورت ، قابل اور قابل فخر لوگوں کی ایک محفل میں موجودگی کئی حسین یادوں کو تازہ کر دے گی۔

معین اختر اور غزالہ قریشی اس پروگرام کے میزبان


 

طالوت

محفلین
دلدار پرویز بھٹی مرحوم کی خوبصورت و پرمزاح گفتگو جو آپ کو لوٹ پوٹ ہونے پر مجبور کر دے گی۔

 

طالوت

محفلین
طفیل نیازی کی خوبصورت پرفارمنس اور اشفاق احمد ، بانو قدسیہ اور محمد حسین نثار جیسے بڑے لکھاری

 

وجی

لائبریرین
پاکستان ٹی وی کی خاص بات یہ تھی کہ وہ تقریبا پاکستان کے تمام علاقوں کی نمائندگی کرتا تھا اور وقت بھی دیتا تھا تمام اسٹیشنز کو اور یہی وجہ تھی کہ پی ٹی وی مقبول تھا
پھر پرائیوئٹ پروڈکشن اور پرائیوئٹ چینل شروع ہوئے جس کی وجہ سے توجہ صرف ایک سے دو شہروں تک محدود ہوکر رہ گئی
پھر نیوز چینل شروع ہوئے انہوں نے وہی کیا جو پی ٹی وی کر رہا تھا تقریبا پورے پاکستان کی نمائندگی اور آج نیوز چینل زیادہ مقبول ہیں
 
لیکن جس یکجہتی اور پاکستانیت کا احساس پی ٹی وی سے ہوتا تھا وہ ان چینلز کی وجہ سے مفقود ہے کیونکہ پیٹ ی وی پر وہی کچھ آتا تھا جو ریاست کی پالیسی سے ہم آہنگ ہوتا تھا۔۔۔اب تو بھانت بھانت کی بولیاں ہیں جس کا جو جی چاہے کہہ رہا ہے۔
ان چینلز کی خیر یارو مناؤ۔ ۔ ۔
گلے میں جو آئیں وہ تانیں اڑاؤ
کہاں ایسی آزادیاں تھیں میسر
اناالحق کہو اور پھانسی نہ پاؤ​
 

فرخ منظور

لائبریرین
مجھے دلدار پرویز بھٹی کی ایک حرکت آج تک یاد ہے کہ ایک پی ٹی وی کا ایوارڈ لائیو آ رہا تھا اور دلدار کو بھی ایک ایوارڈ ملا اور جب وہ ایوارڈ لے کر جانے لگے تو کہنے لگے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور ڈائس پر آکر کہنے لگے کہ بہت شکریہ آپ سب کا دراصل جس ہوٹل میں ہمیں ٹھہرایا گیا ہے اس کے فون میں کچھ خرابی ہے چونکہ یہ ایوارڈ لائیو جا رہا ہے اس لئے میں اپنے گھر یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ میں پرسوں تک گھر واپس پہنچ جاؤں گا۔ :) وہ کلپ مجھے دوبارہ کبھی دیکھنے کو نہیں ملا ۔
 

طالوت

محفلین
پسندیدگی کے لئے شکریہ اور واقعی یہ درست ہے کہ پی ٹی وی کی پالیسی ریاست سے ہم آہنگ ہوتی تھی اور تعصب سے بڑی حد تک پاک۔ کیونکہ اس پالیسی کے باعث بہت سے متعصب لکھاریوں کو بھی تعصب سے پرہیز کرنا پڑتا تھا اور پھر ہر علاقے ہر بولی کی نمائندگی تو تھی ہی ۔ اور فنکار بھی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آتے تھے نا کہ مامے چاچے یا شکل و جسمانی بناوٹ کے اعتبار سے۔ اب ، بس میری توبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے دلدار پرویز بھٹی کی ایک حرکت آج تک یاد ہے کہ ایک پی ٹی وی کا ایوارڈ لائیو آ رہا تھا اور دلدار کو بھی ایک ایوارڈ ملا اور جب وہ ایوارڈ لے کر جانے لگے تو کہنے لگے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور ڈائس پر آکر کہنے لگے کہ بہت شکریہ آپ سب کا دراصل جس ہوٹل میں ہمیں ٹھہرایا گیا ہے اس کے فون میں کچھ خرابی ہے چونکہ یہ ایوارڈ لائیو جا رہا ہے اس لئے میں اپنے گھر یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ میں پرسوں تک گھر واپس پہنچ جاؤں گا۔ :) وہ کلپ مجھے دوبارہ کبھی دیکھنے کو نہیں ملا ۔

اگر سال یاد ہو تو شاید مل جائے ۔۔
وسلام
 
Top