زرداری نےانتہائی کمینے پن کا مظاہرہ کیا ہے
بے شک ، مگر کیا کیا جائے ، حضر ت علی فرماتے ہیں : ’’ آدمی جاہ و مصنب ملنے کے بعد بدلتا نہیں بے نقا ب ہوتا ہے ‘‘
کہاں ہے نام کی آزاد عدلیہ
زرداری کی شان میں قصیدہ
نام جدا زرداری اے
اے بندا نئیں بیماری اے
اے سمج نئیں آندی لوکاں نوں
اے باندر اے کہ مداری اے
اے ساڈے نال کرے گا کی
جنے اپنی بڈی ماری اے
میں نئیں کیندا اپنے ولوں
اے کیندی دنیا ساری اے
اگّے بش نوں چھتر وجّے سن
ہن لگدا ایدی باری اے۔
فرحان صاحب ، کب تک منافقت کریں گے آپ، عدلیہ آزاد نہیں تو ’’ الطاف بھائی ‘‘ نے کس کو خط لکھ کر قرضوں کی معافی کے معاملے پر رونا رویا ہے ، پھر آپ کی پارٹی حکومت کا حصہ ہے ، بلا شرکتِ غیر ے ان کو منتخب کرنے والے آپ بھی ہیں،
اللہ کا خوف ہی کرلیں، مگر اب کہاں خدا خوفی ، کہ فوراً بوری بن جائے گی ،
قصیدے سے کچھ نہیںہوتا جب تک آپ کا ضمیر مردہ ہے ۔۔ تو ہم سب مردہ ہیں۔
کل جو لوگ مشرف کے ساتھ کھڑے تھے، آج زرداری کے ساتھ ہیں۔
عدلیہ کیسے آزاد ہوگی بھائی! جب آپ خود ہی نہیںچاہتے۔
سچ کہا، عدلیہ نے تو حکم دے دیا تھا، عمل کرنا انتظامیہ کا کام ہے ،
عدلیہ نے حکم دیا ، کس نے عمل کیا ، پیٹرول پمپ مالکان اسی قیمت میں بیچ رہے تھے اس دوران،
آج صبح آرڈینینس جاری ہوا تو پمپ بند، ایک گھنٹے لائن میں لگنے کے بعد ’’ نئی ‘‘ قیمت پر تھوڑا بہت ملا۔
گالی بھی نہیں لکھ سکتا۔ کہ وہ اس سے بھی گرا ہوا ہے۔
جی ہاں ہم گالی نہیںدے سکتے ، یہ ہم ہی میں سے ہیں، کہیں اور سے نہیں آئے۔