سحرش سحر
محفلین
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کی قید میں ایک خوبصورت سا پرندہ تھا ۔ بادشا اس کا بہت خیال رکھتا تھا ۔اسے سونے کے پنجرہ میں رکھا تھا ۔ بادشاہ کے نوکر چاکر اس کے دانہ پانی کا بہت خیال رکھتے تھے ۔ بادشاہ ہر وقت اسے اپنے پاس رکھتا تھا ۔ مگر وہ پرندہ خوش نہیں تھا ۔ وہ اداس رہتا ۔ وہ اب اپنی میٹھی آواز میں گیت بھی نہیں گاتا تھا ۔ نہ کچھ کھاتا تھا نہ پیتا تھا ۔ بادشاہ سخت پریشان تھا کہ یہاں اس کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے ۔ دانہ پانی کے لیے اسے خوار نہیں ہونا پڑتا ۔ عام سے گھونسلہ کے مقابلہ میں کئ گنا بہترین سونے کے پنجرہ میں رہتا ہے مگر پھر بھی اداس ہے ۔ آخر بادشاہ نے حکم دے دیا کہ اس کو آزاد کردو.....مگر کوئی اس کا پیچھا کرو کہ یہ جاتا کہاں ہے ؟
پرندہ کو آزادی مل ہی گئی ۔ وہ اڑ گیا اور اڑتے اڑتے سیدھا دریا کے کنارے، ایک کمزور سے جھاڑی نما درخت میں موجود ایک گھونسلہ میں مطمئن بیٹھ گیا ۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جب ہوا سے وہ درخت جھومتا تو اس کے گھونسلہ والی لچکدار شاخ جھک کر دریا کو چھوتی رہتی ۔
یہی حالت پاگل اور نادان محب وطن پاکستانیو ں کی بھی ہے ۔ اس پرندے کے پرخطر گھونسلہ کی طرح انھیں بھی اپنے وطن سے بہت پیار ہے ۔ بعض غریب الدیار....غریب الوطن باہر کی دنیا کے گُن گاتے ہیں اور اپنے وطن کی تضحیک کرتے ہیں تو ان محب وطن نادانوں سے برداشت نہیں ہوتا، اور انتہا پسندی پر اتر آتے ہیں...انتہا پسند اور دہشت گرد قوم جو ٹھہری .....!!
بعض اہل درد کا خیال ہے کہ غربت افلاس، بد دیانتی، بے انصافی استحصال، دہشت گردی .....یہ سب تو پاکستان ہی کا خاصا ہے ۔ باقی دنیا ان آلائشوں سے با لکل پاک صاف ہے ۔
ان کے خیال میں اس ملک نے صرف چند ہی خاندانوں کو ارب پتی بنایا ہے.... جبکہ یہ حق بیس کروڑ آبادی کا ہے ....جو انھیں ملنا چاہیے ...۔
بقول ان کے بد دیانتی اور ملاوٹ کا یہ عالم ہے کہ چیل، کوے، گدھے ہی کھانے کو مل رہے ہیں ۔ اسلیے تو ملک کی ایک بڑی آبادی ملاوٹ سے پاک، حلال کھانے کی تلاش میں باہر کا رخ کر لیتی ہے
مگر میرا ماننا یہ ہےکہ اپنے ٹھکانے سے انسان و حیوان سب پیار کرتے ہیں ۔ اسلیے کہ یہ ان کی پناہ گاہ ہوتی ہے ۔ تھک ہار کے سستانے کے لیے گھر ہی کا رخ کیا جاتا ہے خواہ جیسا بھی ہو ۔
ہمارا پیارا گھر، ہمارا ملک ....جیسا بھی ہے ، ہماری جان ہے ۔ یہ جملہ کہ"" ہمارے بزرگوں نے اسے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے"" اس پہ غور کر لیں تو ہم کبھی بھی اپنے ملک کا مذاق نہ اڑائیں ۔ واقعی قربانی دینا بڑے حوصلہ کا کام ہے ۔ آج اس ملک کا مذاق اڑانے والے جانی قربانی تو چھوڑیں ...ڈیم کے لیے مالی قربانی دے کر اپنی حب الوطنی کا ثبوت دے نا۔ انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب کو مل کر اپنے ارد گرد مستحق افراد کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا نہ کہ حکومت کی ذمہ دار ٹھہرا کر انھیں بھوکا مرنے دیں ۔
اچھے بُرے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں ۔ میرے ملک میں بھی اچھے لوگوں کی کمی نہیں اور برے آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔
اگر صورتحال اس کے برعکس ہوتی تو کب کا اس ملک کا وجود فنا ہو چکا ہوتا ۔
اس ملک میں اللہ نے بڑی برکت ڈالی ہے کہ کئی کمینے مل کر اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹتے جا رہے ہیں کھائے جا رہے ہیں مگر یہ ختم نہیں ہو رہا ۔
ہم لوگ دوسروں پر جلدی انگلی اٹھاتے ہیں مگر اپنے گریبانوں میں جھا نکنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے .....ہم اپنے ملک میں قانون توڑ کر فخرمحسوس کرتے ہیں کہ کیسے کام نکلوایا اور دوسروں کو کیسے بے وقوف بنایا ۔اور دیار غیر میں قانون کی پاسداری بھی کرتے ہیں اور ان کے گُن بھی گاتے ہیں ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کو کیا دے رہے ہیں ۔ کیا ہم اپنے حصہ کا کام کر رہے ہیں؟؟؟ اور دیانت داری سے کام کر رہے ہیں ؟؟؟
یقین جانئے یہ ملک ہے تو ہم ہیں .......اس کے وجود سے ہمارا وجود جڑا ہے ۔
اغیار کے سونے کے پنجرہ سے ہمارا یہ خستہ حال گھونسلہ "" پاکستان"" صد ہا بہتر ہے کیونکہ یہ اپنا ہے ۔ اس کے تنکوں کو جوڑ کر رکھیں ۔ بکھرنے نہ دیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرندہ کو آزادی مل ہی گئی ۔ وہ اڑ گیا اور اڑتے اڑتے سیدھا دریا کے کنارے، ایک کمزور سے جھاڑی نما درخت میں موجود ایک گھونسلہ میں مطمئن بیٹھ گیا ۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جب ہوا سے وہ درخت جھومتا تو اس کے گھونسلہ والی لچکدار شاخ جھک کر دریا کو چھوتی رہتی ۔
یہی حالت پاگل اور نادان محب وطن پاکستانیو ں کی بھی ہے ۔ اس پرندے کے پرخطر گھونسلہ کی طرح انھیں بھی اپنے وطن سے بہت پیار ہے ۔ بعض غریب الدیار....غریب الوطن باہر کی دنیا کے گُن گاتے ہیں اور اپنے وطن کی تضحیک کرتے ہیں تو ان محب وطن نادانوں سے برداشت نہیں ہوتا، اور انتہا پسندی پر اتر آتے ہیں...انتہا پسند اور دہشت گرد قوم جو ٹھہری .....!!
بعض اہل درد کا خیال ہے کہ غربت افلاس، بد دیانتی، بے انصافی استحصال، دہشت گردی .....یہ سب تو پاکستان ہی کا خاصا ہے ۔ باقی دنیا ان آلائشوں سے با لکل پاک صاف ہے ۔
ان کے خیال میں اس ملک نے صرف چند ہی خاندانوں کو ارب پتی بنایا ہے.... جبکہ یہ حق بیس کروڑ آبادی کا ہے ....جو انھیں ملنا چاہیے ...۔
بقول ان کے بد دیانتی اور ملاوٹ کا یہ عالم ہے کہ چیل، کوے، گدھے ہی کھانے کو مل رہے ہیں ۔ اسلیے تو ملک کی ایک بڑی آبادی ملاوٹ سے پاک، حلال کھانے کی تلاش میں باہر کا رخ کر لیتی ہے
مگر میرا ماننا یہ ہےکہ اپنے ٹھکانے سے انسان و حیوان سب پیار کرتے ہیں ۔ اسلیے کہ یہ ان کی پناہ گاہ ہوتی ہے ۔ تھک ہار کے سستانے کے لیے گھر ہی کا رخ کیا جاتا ہے خواہ جیسا بھی ہو ۔
ہمارا پیارا گھر، ہمارا ملک ....جیسا بھی ہے ، ہماری جان ہے ۔ یہ جملہ کہ"" ہمارے بزرگوں نے اسے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے"" اس پہ غور کر لیں تو ہم کبھی بھی اپنے ملک کا مذاق نہ اڑائیں ۔ واقعی قربانی دینا بڑے حوصلہ کا کام ہے ۔ آج اس ملک کا مذاق اڑانے والے جانی قربانی تو چھوڑیں ...ڈیم کے لیے مالی قربانی دے کر اپنی حب الوطنی کا ثبوت دے نا۔ انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب کو مل کر اپنے ارد گرد مستحق افراد کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا نہ کہ حکومت کی ذمہ دار ٹھہرا کر انھیں بھوکا مرنے دیں ۔
اچھے بُرے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں ۔ میرے ملک میں بھی اچھے لوگوں کی کمی نہیں اور برے آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔
اگر صورتحال اس کے برعکس ہوتی تو کب کا اس ملک کا وجود فنا ہو چکا ہوتا ۔
اس ملک میں اللہ نے بڑی برکت ڈالی ہے کہ کئی کمینے مل کر اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹتے جا رہے ہیں کھائے جا رہے ہیں مگر یہ ختم نہیں ہو رہا ۔
ہم لوگ دوسروں پر جلدی انگلی اٹھاتے ہیں مگر اپنے گریبانوں میں جھا نکنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے .....ہم اپنے ملک میں قانون توڑ کر فخرمحسوس کرتے ہیں کہ کیسے کام نکلوایا اور دوسروں کو کیسے بے وقوف بنایا ۔اور دیار غیر میں قانون کی پاسداری بھی کرتے ہیں اور ان کے گُن بھی گاتے ہیں ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کو کیا دے رہے ہیں ۔ کیا ہم اپنے حصہ کا کام کر رہے ہیں؟؟؟ اور دیانت داری سے کام کر رہے ہیں ؟؟؟
یقین جانئے یہ ملک ہے تو ہم ہیں .......اس کے وجود سے ہمارا وجود جڑا ہے ۔
اغیار کے سونے کے پنجرہ سے ہمارا یہ خستہ حال گھونسلہ "" پاکستان"" صد ہا بہتر ہے کیونکہ یہ اپنا ہے ۔ اس کے تنکوں کو جوڑ کر رکھیں ۔ بکھرنے نہ دیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔