چائلڈ لیبر واقعی ایک لعنت ہے جسے ہمارے معاشروں سے ختم ہونا چاہیے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔
اسی چائلڈ لیبر کے حوالے سے سیالکوٹ میں گراں قدر کام ہوا ہے لیکن صرف فٹبال یا ساکر بال انڈسٹری میں۔
1996ء میں فیفا، آی ایل او اور سیالکوٹ چیمبر کے درمیان اٹلانٹا معاہدہ کے بعد طے ہوا تھا کہ سیالکوٹ میں ساکر بال انڈسٹری میں چائلد لیبر کو ختم ہونا چاہیے کیونکہ ساری دنیا میں استعمال ہونے والے فٹبالوں کا ایک بڑا حصہ سیالکوٹ میں بنتا ہے۔ اور میں بھی تب سے لیکر 2008ء تک اس پروگرام میں کسی نہ کسی طرح حصہ لیتا رہا۔ آئی ایل او اور فیفا اس کو مانیٹر کر رہے تھے اور کئی ایک این جی اوز بھی اس میں شامل تھیں کیونکہ چائلڈ لیبر ختم کرنے میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ والدین کا معاشی مسئلہ اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات ہیں اور اس پروگرام کے تحت کام چھوڑنے والے بچوں کیلیے نہ صرف خصوصی سکول بنائے گئے بلکہ ان کو وظیفے اور تعلیم کے اخراجات بھی دیے گئے۔
سیالکوٹ میں یہ پروگرام انتہائی کامیاب رہا، اسکی تعریف سابقہ امریکن صدر بل کلنٹن نے بھی کی اور ہندوستان کی ساکر بال انڈسٹری کے وفود نے بھی سیالکوٹ کے کافی دورے کیے کہ اس ماڈل کو وہ اپنے ملک میں بھی اپنا سکیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ سرکاری کاغذوں میں سیالکوٹ کی ساکر بال انڈسٹری میں 100٪ فیصد چائلڈ لیبر ختم ہو چکی ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے اور اب بھی دور دراز گاؤں کے گھروں میں چھپ کر بچے فٹبال سیتے ہیں، کیونکہ کمپنیوں کے سلائی مرکزوں پر آئی ایل او، اسکی ذیلی ادارے اور این جی اوز وغیرہ چھاپے مارتے ہیں اور اگر کسی کمپنی کے مرکز میں کوئی بچہ کام کرتا ہوا پکڑا جائے تو اسے بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ابھی بھی اس انڈسٹری سے 100٪ فیصد چائلڈ لیبر ختم نہیں ہو سکی لیکن پھر بھی بہت زیادہ حد تک 70-80 فیصد تک ختم ہو چکی ہے۔
سیالکوٹ ہی کی ایک اور بڑی اندسٹری، آلاتِ جراحی یا سرجیکل انڈسٹری میں یہ لعنت عروج پر ہے اور بیچارے چھوٹے چھوٹے بچے قینچیاں اور دوسری چیزیں پالش کر رہے ہوتے ہیں، افسوس صد افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔