چائلڈ لیبر

ناعمہ عزیز

لائبریرین
کیا مجھے خواب دیکھنے کا کوئی حق نہیں ہے ؟
1.jpg



میرے بھی کچھ خواب ہیں ۔

2.jpg


میرا دل کرتا ہے کہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلوں پر ابا کام پر بھیج دیتا ہے :(

3.jpg


آہ مجھ سے نہیں اٹھایا جاتا میرے ہاتھ چھوٹے ہیں نا :(

4-1.jpg
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
کیا میں کبھی سکول نہیں جا پاؤں گا؟
6-1.jpg


ہمارے حصے آج یہی کام آیا تھا :sad:

5.jpg




ابا سے کہوں گا مجھے چھوٹے برش لے دے ، یہ تو میرے ہاتھ میں بھی نہیں آتے ۔

8.jpg
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
پتا نہیں ابھی اور کتنا کام باقی ہے ۔
9-1.jpg

آہ یہ برتنوں کا ڈھیر اور آج تو میری گڑیا کی شادی بھی ہے :sick:

7.jpg
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
سر جی کچھ تو خرید لیں ؟
10.jpg


نیند آئی جارہی ہے مجھے ، کب تک کام کروں ؟:(

12-1.jpg



پتا نہیں کیوں اتنی اینٹیں بنا کر بھی گھر کا خرچہ پورا نہیں ہوتا :roll:

11-1.jpg
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
روز سوئی میرے ہاتھوں میں لگ ہے اور روز ہی ہاتھ زخمی ہو جاتا ہے۔

14.jpg


پتا نہیں ا ماں کس میم ساب کے گھر چھوڑ کر آئے گی! اللہ کم ان کے گھر کام کم ہو ۔
15-1.jpg



19.jpg



یار ایک طرف سے تو پکڑ لے نا ، بہت بھاری ہے ۔
23.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن یہ تو ناعمہ تمہارا اپنا اکاؤنٹ ہے ناں، پھر کس نے حذف کر دیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
چائلڈ لیبر واقعی ایک لعنت ہے جسے ہمارے معاشروں سے ختم ہونا چاہیے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔

اسی چائلڈ لیبر کے حوالے سے سیالکوٹ میں گراں قدر کام ہوا ہے لیکن صرف فٹبال یا ساکر بال انڈسٹری میں۔

1996ء میں فیفا، آی ایل او اور سیالکوٹ چیمبر کے درمیان اٹلانٹا معاہدہ کے بعد طے ہوا تھا کہ سیالکوٹ میں ساکر بال انڈسٹری میں چائلد لیبر کو ختم ہونا چاہیے کیونکہ ساری دنیا میں استعمال ہونے والے فٹبالوں کا ایک بڑا حصہ سیالکوٹ میں بنتا ہے۔ اور میں بھی تب سے لیکر 2008ء تک اس پروگرام میں کسی نہ کسی طرح حصہ لیتا رہا۔ آئی ایل او اور فیفا اس کو مانیٹر کر رہے تھے اور کئی ایک این جی اوز بھی اس میں شامل تھیں کیونکہ چائلڈ لیبر ختم کرنے میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ والدین کا معاشی مسئلہ اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات ہیں اور اس پروگرام کے تحت کام چھوڑنے والے بچوں کیلیے نہ صرف خصوصی سکول بنائے گئے بلکہ ان کو وظیفے اور تعلیم کے اخراجات بھی دیے گئے۔

سیالکوٹ میں یہ پروگرام انتہائی کامیاب رہا، اسکی تعریف سابقہ امریکن صدر بل کلنٹن نے بھی کی اور ہندوستان کی ساکر بال انڈسٹری کے وفود نے بھی سیالکوٹ کے کافی دورے کیے کہ اس ماڈل کو وہ اپنے ملک میں بھی اپنا سکیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ سرکاری کاغذوں میں سیالکوٹ کی ساکر بال انڈسٹری میں 100٪ فیصد چائلڈ لیبر ختم ہو چکی ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے اور اب بھی دور دراز گاؤں کے گھروں میں چھپ کر بچے فٹبال سیتے ہیں، کیونکہ کمپنیوں کے سلائی مرکزوں پر آئی ایل او، اسکی ذیلی ادارے اور این جی اوز وغیرہ چھاپے مارتے ہیں اور اگر کسی کمپنی کے مرکز میں کوئی بچہ کام کرتا ہوا پکڑا جائے تو اسے بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ابھی بھی اس انڈسٹری سے 100٪ فیصد چائلڈ لیبر ختم نہیں ہو سکی لیکن پھر بھی بہت زیادہ حد تک 70-80 فیصد تک ختم ہو چکی ہے۔

سیالکوٹ ہی کی ایک اور بڑی اندسٹری، آلاتِ جراحی یا سرجیکل انڈسٹری میں یہ لعنت عروج پر ہے اور بیچارے چھوٹے چھوٹے بچے قینچیاں اور دوسری چیزیں پالش کر رہے ہوتے ہیں، افسوس صد افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top