[font="]قلعۂ احمد نگر[/font]
[font="]17 دسمبر 1942ء[/font]
[font="]صَدِیقِ مکرم[/font]
[font="]وقت وہی ہے مگر افسوس، وہ چائے نہیں ہے جو طبعِ شورش پسند کو سرمستیوں کی اور فکر عالم آشوب کو آسودگیوں کی دعوت دیا کرتی تھی۔ [/font]
[font="]پھر دیکھیے اندازِ گل افشانیِ گفتار[/font]
[font="]رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے[/font]
[font="]وہ چینی چائے جس کا عادی تھا، کئی دن ہوئے ختم ہو گئی، اور احمد نگر اور پُونا کے بازاروں میں کوئی اس جنسِ گرانمایہ سے آشنا نہیں[/font]
[font="]یک نالۂ مستانہ زجائے نہ شنیدیم[/font]
[font="]ویراں شود آں شہر کہ مے خانہ نہ دارد[/font]
[font="]مجبوراً ہندوستان کی اسی سیاہ پتی کا جوشاندہ پی رہا ہوں جسے تعبیر و تسمیہ کے اس قاعدے کے بموجب کہ: [/font]
[font="]برعکس نہند نام زنگی کافُور[/font]
[font="]لوگ چائے کے نام سے پکارتے ہیں، اور دودھ میں ڈال کر اس کا گرم شربت بنایا کرتے ہیں:[/font]
[font="]درماندۂ صلاح و فسادیم، الحذر[/font]
[font="]زیں رسم ہا کہ مردمِ عاقل نہادہ اند[/font]
[font="]اس کارگاہِ سُودو زیاں میں کوئی عشرت نہیں کہ کسی حسرت سے پیوستہ نہ ہو۔ یہاں زلال صافی کا کوئی جام نہیں بھرا گیا کہ دُردِ کدُورت اپنی تہہ میں نہ رکھتا ہو۔ بادۂ کامرانی کے تعاقب میں ہمیشہ خمارِ ناکامی لگا رہا، اور خندۂ بہار کے پیچھے ہمیشہ گریۂ خزاں کا شیون برپا ہوا۔ ابوالفضل کیا خوب کہہ گیا ہے۔ قدحے پُر نہ شد کہ تہی نہ کردند، د صفحہ تمام نہ شد کہ ورق برنہ گردید:[/font]
[font="]نیکو نہ بود ہیچ مرا دے بہ کمال[/font]
[font="]چوں صفحہ تمام شد ورق برگردد[/font]
[font="]امید ہے، کہ آپ کی "عنبرین چائے" کا ذخیرہ جس کا ایک مرتبہ رمضان میں آپ نے ذکر کیا تھا، اس نایابی کی گزند سے محفوظ ہوگا:[/font]
[font="]امید کہ چوں بندہ تنک مایہ نہ باشی[/font]
[font="]مے خوردن ہر روزہ زعاداتِ کرام است[/font]
[font="]معلوم نہیں، کبھی اس مسئلہ کے دقائق و معارف پر بھی آپ کی توجہ مبذول ہوئی ہے یا نہیں؟ اپنی حالت کیا بیان کروں؟ واقعہ یہ ہے کہ وقت کے بہت سے مسائل کی طرح اس معاملہ میں بھی طبیعت کبھی سوادِ اعظم کے مسلک سے متفق نہ ہو سکی۔ زمانے کی بے راہ رویوں کا ہمیشہ ماتم گسار رہنا پڑا:[/font]
[font="]ازاں کہ پیرویے خلق گمرہی آرد[/font]
[font="]نہ می رویم بہ راہے کہ کارواں رفتہ ست[/font]
[font="]چائے کے باب میں ابناءِ زمانہ سے میرا اختلاف صرف شاخوں اور پتوں کے معاملہ ہی میں نہیں ہوا کہ مفاہمت کی صورت نکل سکتی بلکہ سرے سے جڑ میں ہوا یعنی اختلاف فرع کا نہیں، اصل الاصول کا ہے:[/font]
[font="]دہن کا ذکر کیا، یاں سر ہی غائب ہے گریباں سے[/font]
[font="]سب سے پہلا سوال چائے کے بارے میں خود چائے کا پیدا ہوتا ہے۔ میں چائے کو چائے کے لیے پیتا ہوں، لوگ شکر اور دودھ کے لیے پیتے ہیں۔ میرے لیے وہ مقاصد میں داخل ہوئی، ان کے لیے وسائل میں۔ غور فرمائیے۔ میرا رخ کس طرف ہے اور زمانہ کدھر جا رہا ہے؟[/font]
[font="]تو و طوبٰے و ماو قامتِ یار[/font]
[font="]فکرِ ہرکس بقدرِ ہمتِ اوست[/font]
[font="]چائے چین کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تصریح کے مطابق پندرہ سو برس سے استعمال کی جا رہی ہے لیکن وہاں کبھی کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس جوہرِ لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جا سکتا ہے۔ جن جن ملکوں میں چین سےبراہ راست گئی مثلاً روس، ترکستان، ایران۔ وہاں کبھی بھی کسی کو یہ خیال نہیں گزرا۔ مگر سترھویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی، انہوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی۔ اور چونکہ ہندوستان میں چائے کا رواج انہی کے ذریعے ہوا اس لیے یہ بدعتِ سیئہ یہاں بھی پھیل گئی۔ رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ لوگ چائے میں دودھ ڈالنے کی جگہ دودھ میں چائے ڈالنے لگے۔ بنیاد ظلم در جہاں اندک بود۔ ہر کہ آمد براں مزید کرد۔ اب انگریز تو یہ کہہ کر الگ ہو گئے کہ زیادہ دودھ نہیں ڈالنا چاہیے، لیکن ان کے تخمِ فساد نے جو برگ و بار پھیلا دیے ہیں، انہیں کون چھانٹ سکتا ہے؟ لوگ چائے کی جگہ ایک طرح کا سیال حلوہ بناتے ہیں۔ کھانے کی جگہ پیتے ہیں، اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی۔ ان نادانوں سے کون کہے کہ: [/font]
[font="]ہائے کمبخت، تو نے پی ہی نہیں[/font]
[font="]پھر ایک بنیادی سوال چائے کی نوعیت کا بھی ہے، اور اس بارے میں ایک عجیب عالمگیر غلط فہمی پھیل گئی ہے۔ کس کس سے جھگڑیے اور کس کس کو سمجھائیے[/font]
[font="]روز و شب عربدہ با خلقِ خدا نہ تواں کرد[/font]
[font="]عام طور پر لوگ ایک خاص طرح کی پتی کو جو ہندوستان اور سیلون میں پیدا ہوتی ہے، سمجھتے ہیں چائے ہے، اور پھر اس کی مختلف قسمیں کر کے ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتے ہیں اور اس ترجیح کے بارے میں باہم ردّ و کد کرتے ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے سیلون کی چائے بہتر ہے۔ دوسرا کہتا ہے، دارجلنگ کی بہتر ہے، گویا یہ بھی وہ معاملہ ہوا کہ:[/font]
[font="]در رہِ عشق نہ شد کس بہ یقیں محرم راز[/font]
[font="]ہر کے بر حسبِ فہم گمانے دارد[/font]
[font="]حالانکہ ان فریب خوردگانِ رنگ و بو کو کون سمجھائے کہ جس چیز پر جھگڑ رہے ہیں، وہ سرے سے چائے ہے ہی نہیں:[/font]
[font="]چوں نہ دید مذ حقیقت رہِ افسانہ زوند[/font]
[font="]دراصل یہ عالمگیر غلطی اس طرح ہوئی کہ انیسویں صدی کے اوائل میں جب چائے کی مانگ ہر طرف بڑھ رہی تھی ہندوستان کے بعض انگریز کاشتکاروں کو خیال ہوا کہ سیلون اور ہندوستان کے بلند اور مرطوب مقامات میں چائے کی کاشت کا تجربہ کریں۔ انہوں نے چین سے چائے کے پودے منگوائے اور یہاں کاشت شروع کی۔ یہاں کی مٹی نے چائے پیدا کرنے سے تو انکار کر دیا مگر تقریباً اسی شکل و صورت کی ایک دوسری چیز پیدا کر دی۔ ان زیاں کاروں نے اسی کا نام چائے رکھ دیا، اور اس غرض سے کہ اصلی چائے سے ممتاز رہے، اسے کالی چائے کے نام سے پکارنے لگے:[/font]
[font="]غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ لوگ نالہ کو رسا باندھتے ہیں[/font]
[font="]دنیا جو اس جستجو میں تھی کہ کسی نہ کسی طرح یہ جنس کمیاب ارزاں ہو، بے سوچے بوجھے اسی پر ٹوٹ پڑی اور پھر تو گویا پوری نوعِ انسانی نے اس فریب خوردگی پر اجماع کر لیا۔ اب آپ ہزار سر پیٹیے، سنتا کون ہے:[/font]
[font="]اسی کی سی کہنے لگے اہلِ حشر کہیں پرسشِ داد خواہاں نہیں[/font]
[font="]معاملہ کا سب سے زیادہ درد انگیز پہلو یہ ہے کہ خود چین کے بعض ساحلی باشندے بھی اس عالمگیر فریب کی لپیٹ میں آ گئے اور اسی پتی کو چائے سمجھ کر پینے لگے۔ یہ وہی بات ہوئی کہ بدخشانیوں نے لال پتھر کو لعل سمجھا، اور کشمیریوں نے رنگی ہوئی گھانس کو زعفران سمجھ کر اپنی دستاریں رنگنی شروع کر دیں:[/font]
[font="]چو کفر از کعبہ برخیز، کجا ماند مسلمانی![/font]
[font="]نوعِ انسانی کی اکثریت کے فیصلوں کا ہمیشہ ایسا ہی حال رہا ہے۔ جمعیت بشری کی یہ فطرت ہے کہ ہمیشہ عقلمند آدمی اکا دکا ہوگا۔ بھِیڑ بے وقوفوں ہی کی رہے گی۔ ماننے پر آئیں گے تو گائے کو خدا مان لیں گے۔ انکار پر آئیں گے تو مسیح کو سُولی پر چڑھا دیں گے۔ حکیم سنائی زندگی بھر ماتم کرتا رہا:[/font]
[font="]گاؤ را دارند باور در خدائی عامیاں[/font]
[font="]نو رح باورند ارند از پئے پیغمبری[/font]
[font="]اسی لیے عرفاء طریق کو کہنا پڑا:[/font]
[font="]انکاریے خلق باش، تصدیق انیست مشغول بہ خویش باش توفیق انیست[/font]
[font="]تبعیتِ خلق باش ازحقت باطل کرد ترکِ تقلید گیر، تحقیق انیست[/font]
[font="]یہ تو اصول کی بحث ہوئی۔ اب فروع میں آئیے۔ یہاں بھی کوئی گوشہ نہیں جہاں زمین ہموار ملے۔ سب سے اہم مسئلہ شکر کا ہے۔ مقدار کے لحاظ سے بھی اور نوعیت کے لحاظ سے بھی:[/font]
[font="]دردا کہ طبیب صبر می فرماید دیں نفسِ حریص را شکر می باید[/font]
[font="]جہاں تک مقدار کا تعلق ہے، اسے میری محرومی سمجھیے یا تلخ کامی، کہ مجھے مٹھاس کے ذوق کا بہت کم حصہ ملا ہے۔ نہ صرف چائے میں بلکہ کسی چیز میں بھی زیادہ مٹھاس گوارا نہیں کر سکتا۔ دنیا کے لیے جو چیز مٹھاس ہوئی، وہی میرے لیے بدمزگی ہو گئی۔ کھاتا ہوں تو منہ کا مزہ بگڑ جاتا ہے۔ لوگوں کو جو لذت مٹھاس ملتی ہے، مجھے نمک میں ملتی ہے۔ کھانے میں نمک پڑا ہو مگر میں اوپر سے اور چھڑک دوں گا۔ میں صباحت کا نہیں ملاحت کا قتیل ہوں: [/font]
[font="]و للناس فی ما یعشقون مذاھبُ[/font]
[font="]گویا کہہ سکتا ہوں کہ "اخی یوسف اصبح و انا املح منہ" کے مقام کا لذت شناس ہوں۔ [/font]
[font="]گرنکتہ دانِ عشقی، خوش بشنوایں حکایت[/font]
[font="]اس حدیث کے تذکرہ نے یارانِ قصص و مواعظ کی وہ خانہ ساز روایت یاد دلا دی کہ "الایمان حلو و المؤمن یحبّ الحلویٰ" (یعنی ایمان مٹھاس ہے اور جو مومن ہے وہ مٹھاس کو محبوب رکھے گا) لیکن اگر مدارج ایمانی کے حصول اور مراتبِ ایقانی کی تکمیل کا یہی معیار ٹھہرا، تو نہیں مالوم اِن تہی دستانِ نقدِ حلاوت کا کیا حشر ہونے والا ہے۔ جن کی محبتِ حلاوت کی ساری پونجی چائے کی چند پیالیوں سے زیادہ نہیں ہوئی اور ان میں بھی کم شکر پڑی ہوئی، اور پھر اس کم شکر پر بھی تاسف کہ نہ ہوتی تو بہتر تھا۔ مولانا شبلی مرحوم کا بہترین شعر یاد آ گیا: [/font]
[font="]دو دل بودن دریں رہِ سخت تر عیبے ست سالک را[/font]
[font="]خجل ہستم ز کفرِ خود کہ دارد بوئے ایماں ہم[/font]
[font="]بچوں کا مٹھاس کا شوق ضرب المثل ہے، مگر آپ کو سن کر تعجب ہوگا کہ میں بچپنے میں بھی مٹھاس کا شائق نہ تھا۔ میرے ساتھی مجھے چھیڑا کرتے تھے کہ تجھے نیم کی پتیاں چبانی چاہئیں، اور ایک مرتبہ پسی ہوئی پتیاں کھلا بھی دی تھیں۔[/font]
[font="]اسی باعث سےدایہ طفل کو افیون دیتی ہے[/font]
[font="]کہ تا ہو جائے لذت آشنا تلخیِ دَوراں سے[/font]
[font="]میں نے یہ دیکھ کر کہ مٹھاس کا شائق نہ ہونا نقص سمجھا جاتا ہے، کئی بار بہ تکلف کوشش کی کہ اپنے آپ کو شائق بناؤں، مگر ہر مرتبہ ناکام رہا۔ گویا وہی چندر بھان والی بات ہوئی کہ:[/font]
[font="]مرا دلے ست بہ کفر آشنا، کہ چندیں بار[/font]
[font="]بہ کعبہ بردم و بازش برہمن آوردم[/font]
[font="]بہرحال یہ تو شکر کی مقدار کا مسئلہ تھا، مگر معاملہ اس پرختم کہا ہوتا ہے؟ [/font]
[font="]کوتہ نظر ببیں کہ سخت مختصر گرفت[/font]
[font="]ایک دقیق سوال اس نوعیت کا بھی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ جو شکر ہر چیز میں ڈالی جا سکتی ہے، وہی چائے میں بھی ڈالنی چاہیے۔ اس کے لیے کسی خاص شکر کا اہتمام ضروری نہیں۔ چنانچہ باریک دانوں کی دوبارہ شکر جو پہلے جاوا اور ماریشس سے آتی تھی اور اب ہندوستان میں بننے لگی ہے، چائے کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ حالانکہ چائے کا معاملہ دوسری چیزوں سے بالکل مختلف واقع ہوا ہے۔ اسے حلوے پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا مزاج اس قدر لطیف اور بے میل ہے کہ کوئی بھی چیز جو خود اسی کی طرح صاف اور لطیف نہ ہوگی فوراً اسے مکدر کر دے گی۔ گویا چائے کا معاملہ بھی وہی ہوا کہ:[/font]
[font="]نسیمِ صبح چھو جائے، رنگ ہو میلا[/font]
[font="]یہ دوبارہ شکر اگرچہ صاف کیے ہوئے رس سے بنتی ہے مگر پوری طرح صاف نہیں ہوتی۔ اس غرض سے کہ مقدار کم نہ ہو جائے، صفائی کے آخری مراتب چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ جونہی اسے چائے میں ڈالیے، معاً اس کا ذائقہ متاثر اور لطافت آلودہ ہو جائے گی۔ اگرچہ یہ اثر ہر حال میں پڑتا ہے، تاہم دودھ کے ساتھ پیجیے تو چنداں محسوس نہیں ہوتا۔ کیونکہ دودھ کے ذائقہ کی گرانی چائے کے ذائقہ پر غالب آجاتی ہے۔ اور کام چل جاتا ہے، لیکن سادہ چائے پیجیے تو فوراً بول اٹھے گی۔ اس کے لیے ایسی شکر چاہیے جو بلّور کی طرح بے میل اور برف کی طرح شفاف ہو۔ ایسی شکر ڈلیوں کی شکل میں بھی آتی ہے اور بڑے دانوں کی شکل میں بھی۔ میں ہمیشہ بڑے دانوں کی شفاف شکر کام میں لاتا ہوں، اور اس سے وہ کام لیتا ہوں جو مرزا غالب گلاب سے لیا کرتے تھے:[/font]
[font="]آسودہ باد خاطر غالب کہ خوئے است[/font]
[font="]آمیختن بہ بادۂ صافی گلاب را[/font]