راحیل فاروق
محفلین
ایک جوگی تھا۔
نروان کی کشش کشاں کشاں اسے زندگی کی رنگینیوں سے دور تبت کے پہاڑوں میں کھینچ لے گئی اور وہ ایک کھوہ میں آسن جما کر براجمان ہو گیا۔
مدتیں بیت گئیں۔ جوگی تپسیا میں گم رہا۔
سورج اور چاند کے پھیرے لگتے رہے۔ بہاروں کی دھومیں، خزاؤں کی سرسراہٹیں، گرمیوں کے ڈھنڈورے اور سردیوں کے سناٹے آتے جاتے رہے۔ پہاڑوں پر سبزہ اترتا چڑھتا رہا۔ برفیں جمتی پگھلتی رہیں۔ چرند پرندے مرتے اور پیدا ہوتے رہے۔ منظر بدلتے رہے۔ مہینے، سال، دہائیاں، صدیاں، شاید زمانے گزر گئے۔
جوگی کا دھیان نہ ٹوٹا۔
محبت بڑی شے ہے۔ بڑی طاقت ہے۔ بشر کو فوق البشر بنا دیتی ہے۔ پھر انسانوں کی محبت سے بھی بڑی طاقت نظریات کی محبت ہے۔ لیلیٰ بنت مہدی کی محبت مجنوں بناتی ہے مگر لیلائے خیال کا عشق انسان کو منصور بنا دیتا ہے۔ ہمارا تپسوی دوسری راہ کا مسافر تھا۔ عرفان کا دیوانہ، شعور کا شیدائی، بیداری کا پیمبر۔
وقت گزرتا رہا۔ کھوہ کے باہر کی دنیا منقلب ہو گئی۔ کھوہ کے اندر جوگی وہی کا وہی رہا۔ کھوہ بھی وہی کی وہی رہی۔ اسے اکتاہٹ کا اثر کہیے، تھکن کا نتیجہ، فطرت کا اقتضا یا پھر تقدیر کا کھیل۔ ایک انہونی اس جمود کی کوکھ میں کلبلانے لگی۔
جوگی پر اونگھ طاری ہونے لگی۔ بالکل غیرمحسوس انداز میں اس کے دھیان میں بے دھیانی سرایت کرنے لگی۔ انہونی سر نکال رہی تھی۔
ایک دن بیٹھے بیٹھے جوگی کی آنکھیں مند گئیں۔
قیامت ایک لمحے میں آئی اور اسی میں گزر بھی گئی۔ حاصل سے لاحاصل کا سفر سچ مچ پلک جھپکنے ہی میں طے ہو گیا۔ وہ سنبھلا مگر تب تک چڑیاں کھیت چگ گئی تھیں۔ تپسیا اکارت چلی گئی تھی۔ مدتوں کی محنت غارت ہو چکی تھی۔ دھیان ٹوٹ گیا تھا۔
تپسوی جلال میں آ گیا۔ کہتے ہیں کہ اس نے اپنی پلکوں میں انگلیاں ڈالیں اور انھیں نوچ کر سامنے پھینک دیا۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اس کے بعد اس نے پھر سے آسن جمایا اور عبادت میں محو ہو گیا۔
اب آنکھیں کیسے مند سکتی تھیں؟ اس شیش محل کے جلووں کو کون روک سکتا ہے جس کے دروازے ہی اکھیڑ ڈالے گئے ہوں؟ خون جوگی کی آنکھوں سے رس رس کر کھوہ کی مٹی میں جذب ہوتا رہا۔ کون جانتا تھا کہ تبھی ایک اور انہونی نے جنم لے لیا تھا۔
دن گزرتے گئے۔
ایک کونپل نے زمین سے سر نکالا اور رفتہ رفتہ نمو پاتی گئی۔ اٹھتی اٹھتی ایک دن وہ جوگی کی آنکھوں کے مقابل جا پہنچی۔ دھیان پھر ٹوٹ گیا۔ جوگی نے حیرت سے اس نونہال پر نگاہ کی جو ان پتھروں کا سینہ چیر کر نکل آیا تھا۔ کیا یہ کوئی نیا امتحان تھا؟
نہیں۔ حکایت کہتی ہے کہ یہ دراصل ایک بہت بڑا انعام تھا۔ جو گی کے لیے ہی نہیں، تمام انسانوں کے لیے۔۔۔
اس پودے کو دنیا آج "چائے" کے نام سے جانتی ہے۔ بیداری، شعور اور آگہی کا استعارہ!
(ماخوذ)
نروان کی کشش کشاں کشاں اسے زندگی کی رنگینیوں سے دور تبت کے پہاڑوں میں کھینچ لے گئی اور وہ ایک کھوہ میں آسن جما کر براجمان ہو گیا۔
مدتیں بیت گئیں۔ جوگی تپسیا میں گم رہا۔
سورج اور چاند کے پھیرے لگتے رہے۔ بہاروں کی دھومیں، خزاؤں کی سرسراہٹیں، گرمیوں کے ڈھنڈورے اور سردیوں کے سناٹے آتے جاتے رہے۔ پہاڑوں پر سبزہ اترتا چڑھتا رہا۔ برفیں جمتی پگھلتی رہیں۔ چرند پرندے مرتے اور پیدا ہوتے رہے۔ منظر بدلتے رہے۔ مہینے، سال، دہائیاں، صدیاں، شاید زمانے گزر گئے۔
جوگی کا دھیان نہ ٹوٹا۔
محبت بڑی شے ہے۔ بڑی طاقت ہے۔ بشر کو فوق البشر بنا دیتی ہے۔ پھر انسانوں کی محبت سے بھی بڑی طاقت نظریات کی محبت ہے۔ لیلیٰ بنت مہدی کی محبت مجنوں بناتی ہے مگر لیلائے خیال کا عشق انسان کو منصور بنا دیتا ہے۔ ہمارا تپسوی دوسری راہ کا مسافر تھا۔ عرفان کا دیوانہ، شعور کا شیدائی، بیداری کا پیمبر۔
وقت گزرتا رہا۔ کھوہ کے باہر کی دنیا منقلب ہو گئی۔ کھوہ کے اندر جوگی وہی کا وہی رہا۔ کھوہ بھی وہی کی وہی رہی۔ اسے اکتاہٹ کا اثر کہیے، تھکن کا نتیجہ، فطرت کا اقتضا یا پھر تقدیر کا کھیل۔ ایک انہونی اس جمود کی کوکھ میں کلبلانے لگی۔
جوگی پر اونگھ طاری ہونے لگی۔ بالکل غیرمحسوس انداز میں اس کے دھیان میں بے دھیانی سرایت کرنے لگی۔ انہونی سر نکال رہی تھی۔
ایک دن بیٹھے بیٹھے جوگی کی آنکھیں مند گئیں۔
قیامت ایک لمحے میں آئی اور اسی میں گزر بھی گئی۔ حاصل سے لاحاصل کا سفر سچ مچ پلک جھپکنے ہی میں طے ہو گیا۔ وہ سنبھلا مگر تب تک چڑیاں کھیت چگ گئی تھیں۔ تپسیا اکارت چلی گئی تھی۔ مدتوں کی محنت غارت ہو چکی تھی۔ دھیان ٹوٹ گیا تھا۔
تپسوی جلال میں آ گیا۔ کہتے ہیں کہ اس نے اپنی پلکوں میں انگلیاں ڈالیں اور انھیں نوچ کر سامنے پھینک دیا۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اس کے بعد اس نے پھر سے آسن جمایا اور عبادت میں محو ہو گیا۔
اب آنکھیں کیسے مند سکتی تھیں؟ اس شیش محل کے جلووں کو کون روک سکتا ہے جس کے دروازے ہی اکھیڑ ڈالے گئے ہوں؟ خون جوگی کی آنکھوں سے رس رس کر کھوہ کی مٹی میں جذب ہوتا رہا۔ کون جانتا تھا کہ تبھی ایک اور انہونی نے جنم لے لیا تھا۔
دن گزرتے گئے۔
ایک کونپل نے زمین سے سر نکالا اور رفتہ رفتہ نمو پاتی گئی۔ اٹھتی اٹھتی ایک دن وہ جوگی کی آنکھوں کے مقابل جا پہنچی۔ دھیان پھر ٹوٹ گیا۔ جوگی نے حیرت سے اس نونہال پر نگاہ کی جو ان پتھروں کا سینہ چیر کر نکل آیا تھا۔ کیا یہ کوئی نیا امتحان تھا؟
نہیں۔ حکایت کہتی ہے کہ یہ دراصل ایک بہت بڑا انعام تھا۔ جو گی کے لیے ہی نہیں، تمام انسانوں کے لیے۔۔۔
اس پودے کو دنیا آج "چائے" کے نام سے جانتی ہے۔ بیداری، شعور اور آگہی کا استعارہ!
ہائے، کم بخت! تو نے پی ہی نہیں
(ماخوذ)