"چالیس فیصد ایرانی تُرکی زبان بولتے ہیں" - سابق ایرانی وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی

حسان خان

لائبریرین
اگرچہ میرے خیال سے اِس میں ذرا مبالغہ موجود ہے، اور ایران کے تُرکی گویوں کی کُل تعداد تقریباً پچیس سے تیس فیصد بتائی جاتی ہے، لیکن بہر حال چند سال قبل سابق وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی کا تُرکیہ میں دیا یہ بیان بِسیار مشہور ہوا تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادرم! ایران میں ترکی فقط ولایتِ آذربائیجان میں بولی جاتی ہے؟ اور آذربایجان میں دیگر کون سی زبانیں بولی جاتیں ہیں؟
نہیں، آذربائجان کے علاوہ فارس، ہمدان، قزوین، البُرز اور خُراسان میں بھی تُرکی گو اقلیت موجود ہے۔ نیز، تہران کی ایک چوتھائی آبادی تُرکی گو آذربائجانیوں پر مشتمل ہے، اور کہا جاتا ہے کہ، جس طرح کراچی میں پشاور اور کابُل سے زیادہ پشتون آباد ہیں اُسی طرح، تہران میں تبریز اور باکو سے زیادہ آذربائجانی تُرک آباد ہیں۔
ایران کے صوبۂ مغربی آذربائجان میں کُرد اقلیت موجود ہے جو کُردی زبان بولتی ہے۔ لیکن ایرانی آذربائجان کے باقی حصّوں میں گُفتاری لحاظ سے تُرکی ہی غالب ہے اور وہاں کے مردُم تُرکی ہی میں گفتگو کرتے ہیں، لیکن تعلیم و تدریس کی زبان فارسی ہونے کے باعث وہ فارسی بھی بالکل روانی سے بول اور لکھ سکتے ہیں، بلکہ تحریری زبان کے طور پر ایرانی آذربائجان میں بھی فارسی تُرکی پر غالب ہے، اور تُرکی میں مطبوعات کی تعداد بِسیار کم ہے۔ مع الأسف، ایرانی آذربائجان میں زبانِ تُرکی مضمون کے طور پر بھی تدریس نہیں کی جاتی۔
 
آخری تدوین:
اگرچہ میرے خیال سے اِس میں ذرا مبالغہ موجود ہے، اور ایران کے تُرکی گویوں کی کُل تعداد تقریباً پچیس سے تیس فیصد بتائی جاتی ہے، لیکن بہر حال چند سال قبل جواد ظریف کا یہ بیان بِسیار مشہور ہوا تھا۔
ایران دا یاشایان بیر تورک اولاراق سؤیله‌ییرم، قاجار خانلیغی دؤنمی ایرانین یوزه قیرخی تورک ایدی لکن پهلوی شاهلیغی دؤنمیندن باشلایاراق ایران دا تورکلره قارشی نفرت حسّی تبلیغ اولونوب تورکلری تحقیر ائتمه یاییلدی، بو تحقیر و نفرت اثرینده تورکلرین بیر قسمی اؤز کیملیکلرینی دانیب اؤزلرینه فارس دئدیلر، بونون اوچون تورکلرین جمعیتی آزالدی (آسیمیلاسیون)
بو گون ایران دا یوزه قیرخ جمعیتین آتاسی یا آناسیندان بیری تورک دور لکن اؤزون تورک بیلن اؤزونه تورک دئین تقریب ایله یوزه اوتوز دور، بو گون ایران دا پهلوی دؤنمی کیمی تورکلری تحقیر ائتمه تاسفله دوام ائدیر، خصوصا ایران دا سوسیال دموکرات دوشونجه‌سینه باغلی اولان حزبلر (اصلاح طلبلر) طرفیندن بو تحقیرلر داها گوجلو دور، بونون ندنی ده اونلارین دوشونجه‌لرینین اروپادا کؤکلنمه‌سی دیر، بیلدیگینیز کیمی مسلمان تورک عسگرلرین صلیبی ساواشلاردا اروپالی‌لارا غلبه ائتمه‌سی اروپالی‌لاردا تورکلردن بیر تاریخی نفرت یارالدیب دیر، اصلاح طلب‌لر چوخ آغیر شکل ده «یورو سنتریک» دوشونجه‌لری وار دیر و سیاسی باخیشلارینی اروپا فلسفه‌چی‌لریندن آلیب‌لار، بعلاوه بعضی‌لر تاریخ ده ایرانین (باستانی آنلاییش ایله، ساسانی‌لر، هخامنشی‌لری نظرده آلاراق) گوجلنمه‌سینی دایاندیران عاملی، تورکلر بیلیرلر (بیلدیگینیز کیمی سامانی لر و باشقا دولتلر تورکلر (قاراخانلی‌لار) یوروشو ایله سقوط ائدیبلر)

ایران دا تورکلر یاشایان بؤلگه‌لر: آذربایجان شرقی، آذربایجان غربی، اردبیل، زنجان، همدان (شمال قسمینده)، کردستان (شمال و شرق قسمینده بیجار و قروه)، کرمانشاه (شرق قسمینده سونقور)، خوزستان (شمال قسمینده آغاجاری)، اراک (داغینیق شکلده خلجلر و آذربایجان تورکلری)، قزوین، تهران (تقریب ایله یوزه اوتوز بئش تورک دور)، گیلان (غرب قسمینده آستارا و باشقا یئرلر) مازندران (شرق قسمینده گلوگاه)، گلستان (تورکمنلر، قزل باشلار و آذربایجان دان کؤچن تورکلر)، خراسان شمالی (شمال و مرکز قسمینده)، سمنان (شمال قسمینده آز جمعیت ایله)، کرج (تقریب ایله یوزه قیرخ تورک دور)، اصفهان و فارس و کهگلویه بویر احمد (قشقایی تورکلری داغینیق شکلده)، کرمان (پیچاقچی و افشار ایل‌لری داغینیق شکلده)، قم (خلج تورکلری داغینیق شکلده و آذربایجان دان کؤچن تورکلر)
باشقا بؤلگه‌لرده داها مهاجرت ائدیب یاشایان تورکلر واردیر
 

حسان خان

لائبریرین
ایران دا یاشایان بیر تورک اولاراق سؤیله‌ییرم، قاجار خانلیغی دؤنمی ایرانین یوزه قیرخی تورک ایدی لکن پهلوی شاهلیغی دؤنمیندن باشلایاراق ایران دا تورکلره قارشی نفرت حسّی تبلیغ اولونوب تورکلری تحقیر ائتمه یاییلدی، بو تحقیر و نفرت اثرینده تورکلرین بیر قسمی اؤز کیملیکلرینی دانیب اؤزلرینه فارس دئدیلر، بونون اوچون تورکلرین جمعیتی آزالدی (آسیمیلاسیون)
بو گون ایران دا یوزه قیرخ جمعیتین آتاسی یا آناسیندان بیری تورک دور لکن اؤزون تورک بیلن اؤزونه تورک دئین تقریب ایله یوزه اوتوز دور، بو گون ایران دا پهلوی دؤنمی کیمی تورکلری تحقیر ائتمه تاسفله دوام ائدیر، خصوصا ایران دا سوسیال دموکرات دوشونجه‌سینه باغلی اولان حزبلر (اصلاح طلبلر) طرفیندن بو تحقیرلر داها گوجلو دور، بونون ندنی ده اونلارین دوشونجه‌لرینین اروپادا کؤکلنمه‌سی دیر، بیلدیگینیز کیمی مسلمان تورک عسگرلرین صلیبی ساواشلاردا اروپالی‌لارا غلبه ائتمه‌سی اروپالی‌لاردا تورکلردن بیر تاریخی نفرت یارالدیب دیر، اصلاح طلب‌لر چوخ آغیر شکل ده «یورو سنتریک» دوشونجه‌لری وار دیر و سیاسی باخیشلارینی اروپا فلسفه‌چی‌لریندن آلیب‌لار، بعلاوه بعضی‌لر تاریخ ده ایرانین (باستانی آنلاییش ایله، ساسانی‌لر، هخامنشی‌لری نظرده آلاراق) گوجلنمه‌سینی دایاندیران عاملی، تورکلر بیلیرلر (بیلدیگینیز کیمی سامانی لر و باشقا دولتلر تورکلر (قاراخانلی‌لار) یوروشو ایله سقوط ائدیبلر)

ایران دا تورکلر یاشایان بؤلگه‌لر: آذربایجان شرقی، آذربایجان غربی، اردبیل، زنجان، همدان (شمال قسمینده)، کردستان (شمال و شرق قسمینده بیجار و قروه)، کرمانشاه (شرق قسمینده سونقور)، خوزستان (شمال قسمینده آغاجاری)، اراک (داغینیق شکلده خلجلر و آذربایجان تورکلری)، قزوین، تهران (تقریب ایله یوزه اوتوز بئش تورک دور)، گیلان (غرب قسمینده آستارا و باشقا یئرلر) مازندران (شرق قسمینده گلوگاه)، گلستان (تورکمنلر، قزل باشلار و آذربایجان دان کؤچن تورکلر)، خراسان شمالی (شمال و مرکز قسمینده)، سمنان (شمال قسمینده آز جمعیت ایله)، کرج (تقریب ایله یوزه قیرخ تورک دور)، اصفهان و فارس و کهگلویه بویر احمد (قشقایی تورکلری داغینیق شکلده)، کرمان (پیچاقچی و افشار ایل‌لری داغینیق شکلده)، قم (خلج تورکلری داغینیق شکلده و آذربایجان دان کؤچن تورکلر)
باشقا بؤلگه‌لرده داها مهاجرت ائدیب یاشایان تورکلر واردیر
تُرکی سے ترجمہ:
ایران میں رہنے والے ایک تُرک کے طور پر کہہ رہا ہوں: قاجاری سلطنت کے دور میں ایران کا چالیس فیصد تُرک تھا، لیکن پہلوی شہنشاہی کے زمانے سے ایران میں تُرکوں کے خلاف احساسِ نفرت کی تبلیغ اور تُرکوں کی تحقیر کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اِس تحقیر و نفرت کے اثر میں تُرکوں کے ایک حصّے نے خود کی شناخت کا اِنکار کر کے خود کو فارس کہا، لہٰذا تُرکوں کی آبادی کم ہو گئی (ضم سازی)
اِس وقت ایران میں چالیس فیصد آبادی کے مادر و پدر میں سے کوئی ایک تُرک ہے، لیکن خود کو تُرک جاننے اور خود کو تُرک کہنے والے تقریباً تیس فیصد ہیں۔ مُتأسفانہ، اِس وقت ایران میں پہلوی دور کی طرح تُرکوں کی تحقیر کُنی جاری ہے۔ خصوصاً ایران میں مُعاشرتی جمہوریت خواہ (سوشل ڈیموکریٹ) فکر سے تعلق رکھنے والی جماعتوں (اصلاح طلَبوں) کی جانب سے یہ تحقیریں زیادہ شدّت کے ساتھ کی جاتی ہیں، اِس کا سبب یہ ہے کہ اُن کے تفکُّرات یورپ سے مأخوذ ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ صلیبی جنگوں میں مُسلمان تُرک افواج کے یورپیوں پر غلبہ پانے نے یورپیوں میں تُرکوں کی نسبت ایک تاریخی نفرت پیدا کر دی تھی۔ اصلاح طلَبوں میں شدید نوع کے یورپ محور (یورو سینٹرک) تفکُّرات موجود ہیں، اور اُنہوں نے اپنے سیاسی نُقطہ ہائے نظر کو یورپی فلسفیوں سے اخذ کیا ہے۔ علاوہ بریں، بعض افراد تاریخ میں ایران (اگر عہدِ قدیم کے مفہوم کے مطابق ساسانیوں اور ہخامنَشیوں کو مدِ نظر رکھا جائے) کی قوّت یابی کو روکنے کا عامِل تُرکوں کو جانتے ہیں (جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سامانیوں اور دیگر سلطنتوں نے تُرکوں (قاراخانیوں) کے حملے کے باعث سُقوط کیا تھا۔)

ایران میں تُرک نشیں خطّے: مشرقی آذربائجان، مغربی آذربائجان، اردَبیل، زنجان، ہمَدان (شمالی حصّے میں)، کُردستان (شمالی و مشرقی حصّے میں بیجار و قروہ)، کِرمانشاہ (مشرقی حصّے میں سونقوز)، خوزستان (شمالی حصّے میں آغاجاری)، اراک (پراگندہ شکل میں خلَج اور آذربائجانی تُرک)، قزوین، تہران (تقریباً پینتیس فیصد تُرک ہے)، گیلان (مغربی حصّے میں آستارا اور دیگر جگہیں)، مازَندران (مشرقی حصّے میں گلوگاہ)، گُلستان (تُرکمَنان، قِزِلباشان، اور آذربائجان سے کوچ کردہ تُرکان)، شمالی خُراسان (شمالی اور مرکزی حصّے میں)، سمنان (شمالی حصّے میں اقلیت)، کرَج (تقریباً چالیس فیصد تُرک)، اصفہان و فارس و کُہگیلُویہ و بویَر احمد (قشقائی تُرکان پراگندہ شکل میں)، کِرمان (پیچاقچی اور افشار قبائل پراگندہ شکل میں)، قُم (خلَجی تُرکان پراگندہ شکل میں اور آذربائجان سے کوچ کردہ تُرکان)۔
دیگر خِطّوں میں بھی مُہاجرت کر کے زندگی بسر کرنے والے تُرکان موجود ہیں۔
 
آخری تدوین:
اول: اپنے برادران عزیز از جان من گجرات سے اکثر یہ گلہ کرتے سُنا گیا ہے کہ جب وہ براستہ ایران و ترکی یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان دو برادر ممالک کی فوج جگہ جگہ ناگے لگائے کھڑی ہوتی ہے اور اکثر بلا اشتعال فائرنگ بھی کرتی ہے- لہذا ہم انسانی حقوق برائے ہجرتِ یورپ تلے اپنے ترک بردران کی حمایت کرتے ہیں وغیرہ
دوئم: حسان بھائی کے مراسلہ ملاحظہ فرمائیں بالخصوص گہرے کئے گئے الفاظ-


کیوں ایران میں بھی جا بجا ناکے لگے ہیں کیا؟
تُرکی سے ترجمہ:
ایران میں رہنے والے ایک تُرک کے طور پر کہہ رہا ہوں: قاجاری سلطنت کے دور میں ایران کا چالیس فیصد تُرک تھا، لیکن پہلوی شہنشاہی کے زمانے سے ایران میں تُرکوں کے خلاف احساسِ نفرت کی تبلیغ اور تُرکوں کی تحقیر کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اِس تحقیر و نفرت کے اثر میں تُرکوں کے ایک حصّے نے خود کی شناخت کا اِنکار کر کے خود کو فارس کہا، لہٰذا تُرکوں کی آبادی کم ہو گئی (ضم سازی)
 

آصف اثر

معطل
اول: اپنے برادران عزیز از جان من گجرات سے اکثر یہ گلہ کرتے سُنا گیا ہے کہ جب وہ براستہ ایران و ترکی یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان دو برادر ممالک کی فوج جگہ جگہ ناگے لگائے کھڑی ہوتی ہے اور اکثر بلا اشتعال فائرنگ بھی کرتی ہے- لہذا ہم انسانی حقوق برائے ہجرتِ یورپ تلے اپنے ترک بردران کی حمایت کرتے ہیں وغیرہ
دوئم: حسان بھائی کے مراسلہ ملاحظہ فرمائیں بالخصوص گہرے کئے گئے الفاظ-
پہلوی جب تھا اس وقت تحفظ کی ضرورت تھی اب کس بات کی؟
 

آصف اثر

معطل
اِس وقت ایران میں چالیس فیصد آبادی کے مادر و پدر میں سے کوئی ایک تُرک ہے، لیکن خود کو تُرک جاننے اور خود کو تُرک کہنے والے تقریباً تیس فیصد ہیں۔ مُتأسفانہ، اِس وقت ایران میں پہلوی دور کی طرح تُرکوں کی تحقیر کُنی جاری ہے۔ خصوصاً ایران میں مُعاشرتی جمہوریت خواہ (سوشل ڈیموکریٹ) فکر سے تعلق رکھنے والی جماعتوں (اصلاح طلَبوں) کی جانب سے یہ تحقیریں زیادہ شدّت کے ساتھ کی جاتی ہیں، اِس کا سبب یہ ہے کہ اُن کے تفکُّرات یورپ سے مأخوذ ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ صلیبی جنگوں میں مُسلمان تُرک افواج کے یورپیوں پر غلبہ پانے نے یورپیوں میں تُرکوں کی نسبت ایک تاریخی نفرت پیدا کر دی تھی۔ اصلاح طلَبوں میں شدید نوع کے یورپ محور (یورو سینٹرک) تفکُّرات موجود ہیں، اور اُنہوں نے اپنے سیاسی نُقطہ ہائے نظر کو یورپی فلسفیوں سے اخذ کیا ہے۔
یہی کچھ یورپیوں اور اُن کے حواری ایرانیوں نے برصغیر کے مسلمانوں اور افغان پشتونوں کے ساتھ روا رکھا۔ آج تک سیاسی اور عسکری طور پر اسلام اور اسلام پسندوں کو اسی بیانیے میں ٹارگٹ کیا جاتارہاہے۔
 
تُرکی سے ترجمہ:
ایران میں رہنے والے ایک تُرک کے طور پر کہہ رہا ہوں: قاجاری سلطنت کے دور میں ایران کا چالیس فیصد تُرک تھا، لیکن پہلوی شہنشاہی کے زمانے سے ایران میں تُرکوں کے خلاف احساسِ نفرت کی تبلیغ اور تُرکوں کی تحقیر کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اِس تحقیر و نفرت کے اثر میں تُرکوں کے ایک حصّے نے خود کی شناخت کا اِنکار کر کے خود کو فارس کہا، لہٰذا تُرکوں کی آبادی کم ہو گئی (ضم سازی)
اِس وقت ایران میں چالیس فیصد آبادی کے مادر و پدر میں سے کوئی ایک تُرک ہے، لیکن خود کو تُرک جاننے اور خود کو تُرک کہنے والے تقریباً تیس فیصد ہیں۔ مُتأسفانہ، اِس وقت ایران میں پہلوی دور کی طرح تُرکوں کی تحقیر کُنی جاری ہے۔ خصوصاً ایران میں مُعاشرتی جمہوریت خواہ (سوشل ڈیموکریٹ) فکر سے تعلق رکھنے والی جماعتوں (اصلاح طلَبوں) کی جانب سے یہ تحقیریں زیادہ شدّت کے ساتھ کی جاتی ہیں، اِس کا سبب یہ ہے کہ اُن کے تفکُّرات یورپ سے مأخوذ ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ صلیبی جنگوں میں مُسلمان تُرک افواج کے یورپیوں پر غلبہ پانے نے یورپیوں میں تُرکوں کی نسبت ایک تاریخی نفرت پیدا کر دی تھی۔ اصلاح طلَبوں میں شدید نوع کے یورپ محور (یورو سینٹرک) تفکُّرات موجود ہیں، اور اُنہوں نے اپنے سیاسی نُقطہ ہائے نظر کو یورپی فلسفیوں سے اخذ کیا ہے۔ علاوہ بریں، بعض افراد تاریخ میں ایران (اگر عہدِ قدیم کے مفہوم کے مطابق ساسانیوں اور ہخامنَشیوں کو مدِ نظر رکھا جائے) کی قوّت یابی کو روکنے کا عامِل تُرکوں کو جانتے ہیں (جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سامانیوں اور دیگر سلطنتوں نے تُرکوں (قاراخانیوں) کے حملے کے باعث سُقوط کیا تھا۔)

ایران میں تُرک نشیں خطّے: مشرقی آذربائجان، مغربی آذربائجان، اردَبیل، زنجان، ہمَدان (شمالی حصّے میں)، کُردستان (شمالی و مشرقی حصّے میں بیجار و قروہ)، کِرمانشاہ (مشرقی حصّے میں سونقوز)، خوزستان (شمالی حصّے میں آغاجاری)، اراک (پراگندہ شکل میں خلَج اور آذربائجانی تُرک)، قزوین، تہران (تقریباً پینتیس فیصد تُرک ہے)، گیلان (مغربی حصّے میں آستارا اور دیگر جگہیں)، مازَندران (مشرقی حصّے میں گلوگاہ)، گُلستان (تُرکمَنان، قِزِلباشان، اور آذربائجان سے کوچ کردہ تُرکان)، شمالی خُراسان (شمالی اور مرکزی حصّے میں)، سمنان (شمالی حصّے میں اقلیت)، کرَج (تقریباً چالیس فیصد تُرک)، اصفہان و فارس و کُہگیلُویہ و بویَر احمد (قشقائی تُرکان پراگندہ شکل میں)، کِرمان (یپچاقچی اور افشار قبائل پراگندہ شکل میں)، قُم (خلَجی تُرکان پراگندہ شکل میں اور آذربائجان سے کوچ کردہ تُرکان)۔
دیگر خِطّوں میں بھی مُہاجرت کر کے زندگی بسر کرنے والے تُرکان موجود ہیں۔
ما شاء الله، وہ مجھ سے ترکی سے بہتر جانتا ہے. :highfive: (گوگل ترنسلیت کمکی ایله: ما شاء الله، تورکجه‌نی من دن یاخشی باشاریر)
 

حسان خان

لائبریرین
ما شاء الله، وہ مجھ سے ترکی سے بہتر جانتا ہے. :highfive: (گوگل ترنسلیت کمکی ایله)
حؤرمت‌لی قارداشېم، گوگل چئویری اوردوجایا غلط‌سیز و دۆزگۆن ترجۆمه ائده‌بیلمز، آمما اؤنه‌ملی دئڲیل، من سیزین نظرده توتدوغونوز معنایې آنلادېم. چۏخ تشککۆر ائدیرم کی منیم تۆرکجه‌م حاققېندا بؤیله دۆشۆنۆرسۆنۆز. :)
 

حسان خان

لائبریرین
مع الأسف، ایرانی آذربائجان میں زبانِ تُرکی مضمون کے طور پر بھی تدریس نہیں کی جاتی۔
شہرِ شیراز میں شائع ہوئی تُرکی کتاب 'مأذون قاشقایې شعرلری' (اشعارِ مأذون قشقایی) پر لکھے گئے پیش لفظ میں ایران سے تعلق رکھنے والے اسداللہ مردانی رحیمی لکھتے ہیں:

"رېضا شاه زامانېندا تۆرک دیلینیڭ ائڲیتیمی ایران‌دا یاساق‌لاندې. بو یاساق‌لېق سوڭراکې حۆکۆمت یعنې محممد رېضا شاه پهلوی دؤنه‌مینده ده دوام ائتدی. آما سۏنوندا یاخلاشېق ۵۴ ایل‌دن سۏڭرا ۱۹۷۹ده ایسلام دئویریمی سۏنوج‌لارېندان دۏلایې، بو باسقې تۆرک دیلی اۆستۆندن گؤتۆرۆلدۆ. بو تارېخانچا آنجاق هنۆز تۆرک دیلی، مدرسه‌لرده درس وئریل‌مه‌ییر و فقط تبریز دانېش‌گاهېندا تۆرک دیلی و ادبیاتې بیر ریشته اۏلاراق تدریس اۏلماق‌دادېر."

ترجمہ:
"رِضا شاہ کے زمانے میں تُرکی زبان کی تعلیم و تدریس ایران میں ممنوع قرار دے دی گئی۔ یہ ممانعت بعد میں آنے والی حکومت یعنی محمد رِضا شاہ پہلوی کے دور میں بھی جاری رہی۔ لیکن بالآخر تقریباً ۵۴ سال بعد ۱۹۷۹ء میں اسلامی انقلاب کے نتائج کے باعث یہ فِشار تُرکی زبان پر سے اُٹھا لیا گیا۔ لیکن ہنوز اِس روز تک تُرکی زبان مکتبوں میں تدریس نہیں کی جاتی، اور صرف دانشگاہِ تبریز میں تُرکی زبان و ادبیات ایک شُعبے کے طور پر تدریس ہوتا ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جلال قُلی‌زاده مِزِرْجی اپنی کتاب 'آشنایی با زبانِ تُرکیِ خُراسانی' میں لکھتے ہیں:
"آشکار است که آموزش زبان گفتاری در خانه و زبان نوشتاری در مدرسه می‌باشد و همان طور که متذکر شدیم، گفتار و نوشتار دو مقولهٔ متفاوت ولی در عین حال وابسته به هم هستند. ادبیات مکتوب و نوشتاری هیچ زبانی را به صورت صحیح نمی‌توان بدون آموزش رسمی (مدرسه‌ای) آموخت و با توجه به این مسئله، اکثر ترک‌های ایران در خواندن کتاب‌های ترکی یا نگارش آن به دلیل این که فاقد آموزش رسمی مدرسه‌ای هستند، دچار مشکل می‌باشند که این مسئله برای سایر زبان‌های اقلیت ایران نظیر کردی و... نیز وجود دارد. حکایت این مقوله درست به منزلهٔ فارس‌زبان بی‌سوادی است که به راحتی می‌تواند فارسی را صحبت کند ولی قادر به نگارش و مطالعهٔ کتب فارسی نیست و نهایتاً می‌توان اذعان داشت که اکثر ترکان ایرانی در نگارش و مطالعهٔ آسان متون ترکی تقریباً دچار مشکل هستند. از این رو هر زبانی را در حوزهٔ نوشتاری، یا باید در مدرسه آموخت و یا این که با تلاش شخصی نسبت به آموختن آن اقدام کرد و اغلب افرادی که در ایران می‌توانند به راحتی کتاب‌های ترکی را مطالعه کنند و قادر به نگارش صحیح آن هستند از راه دوم یعنی تلاش شخصی وارد شده‌اند و به این زبان از حوزهٔ نوشتاری (کتابت) مسلط شده‌اند."

ترجمہ:
"ظاہر ہے کہ گُفتاری زبان کی تعلیم گھر میں جبکہ نوِشتاری زبان کی تعلیم مکتب میں ہوتی ہے، اور جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، گُفتار و نوِشتار دو مختلف لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے سے وابستہ زُمرے ہیں۔ کسی بھی زبان کے مکتوب و تحریری ادبیات کو رسمی (مکتبی) تعلیم کے بغیر صحیح طرح سے نہیں سیکھا جا سکتا، اور اِس وجہ سے ایران کے اکثر تُرک، چونکہ وہ [تُرکی زبان میں] رسمی مکتبی تعلیم سے فاقِد ہیں، تُرکی کتابیں پڑھنے یا لکھنے میں مشکل سے دوچار ہیں۔ اور یہ مسئلہ ایران کی دیگر اقلیتی زبانوں مثلاً کُردی وغیرہ کے لیے بھی موجود ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی ناخواندہ فارسی زبان شخص بہ آسانی فارسی میں گفتگو تو کر سکتا ہے لیکن فارسی کتب لکھنے اور اُن کے مطالعے پر قادر نہیں ہوتا۔ آخر میں، یہ اعتراف کیا جا سکتا ہے کہ اکثر ایرانی تُرک، تُرکی مُتون کی آسان نِگارش و مُطالعہ میں تقریباً دوچارِ مشکل ہیں۔ لہٰذا ہر زبان کو تحریری سطح پر یا تو مکتب میں سیکھنا لازم ہے یا یہ کہ شخصی کوشش کے ساتھ اُس کو سیکھنے کا اقدام کیا جائے۔ اور ایران میں جو افراد آسانی کے ساتھ تُرکی کتابوں کا مُطالعہ کر سکتے ہیں اور اُس کو درست طریقے سے لکھنے کی قُدرت رکھتے ہیں، اُن میں سے بیشتر راہِ دوم کے ذریعے یعنی شخصی کوشش کے ذریعے ماہر ہوئے ہیں اور تحریری (کِتابتی) لحاظ سے اِس زبان پر تسلُّط حاصل کر سکے ہیں۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
غلطی کی درستی: معذرت چاہتا ہوں، اِس ویڈیو میں مصاحبہ دینے والے شخص حالیہ ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نہیں، بلکہ سابق ایرانی وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی ہیں، جو سال ۲۰۱۳ء تک ایران کے وزیرِ خارجہ تھے، اور جن کو میں اشتباہاً جواد ظریف سمجھ بیٹھا تھا۔ اِس غلطی کو درست کر لیا گیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایران کے مختلف مناطِق میں تُرکی گویوں کا تناسُب:
Rustahaye-Torkzaban.jpg
 
Top