چاندنی رہتی ہے شب بھر زیرِ پا بالائے سر ۔ تسلیم لکھنوی

چاندنی رہتی ہے شب بھر زیرِ پا بالائے سر​
ہائے میں اور ایک چادر زیرِ پا بالائے سر​
خار ہائے دشتِ غربت داغِ سودائے جنوں​
کچھ نہ کچھ رکھتا ہوں اکثر زیرِ پا بالائے سر​
بھاگ کر جاؤں کہاں پست و بلندِ دہر سے​
ہیں زمین و چرخ گھر گھر زیرِ پا بالائے سر​
کون ہے بالینِ تربت آج سر گرمِ خرام​
وجد میں ہے شورِ محشر زیرِ پا بالائے سر​
بے تکلف کیا بسر ہوتی ہے کنجِ گور میں​
خاک بستر خاک چادر زیرِ پا بالائے سر​
اوڑھ کر آبِ رواں کا گر دوپٹّا تم چلو​
موج زن ہو اک سمندر زیرِ پا بالائے سر​
کچھ اڑا کر شوخیوں سے وہ ستارے بزم میں​
کہتے ہیں دیکھو تو اختر زیرِ پا بالائے سر​
جادہ و موجِ ہوا بے تیرے دونوں دشت میں​
کر رہے ہیں کارِ خنجر زیرِ پا بالائے سر​
جز خراشِ خار یا خاکِ مذلّت قیس کو​
اور کیا دیتا مقدّر زیرِ پا بالائے سر​
جیتے جی سب شان تھی مر کر بجائے تخت و تاج​
خاک رکھتا ہے سکندر زیرِ پا بالائے سر​
سایہ ہوں، کیا اوج میرا، کیا مری افتادگی​
ایک عالم ہے برابر زیرِ پا بالائے سر​
مُردے ہیں پامال، مشتاقِ نظارہ ہیں مسیح​
دیکھتا چل او ستم گر! زیرِ پا بالائے سر​
جسم و جاں دونوں زمین و آسماں کے ہیں مکیں​
ایک میں رکھتا ہوں دو گھر زیرِ پا بالائے سر​
ہو نہیں سکتا کبھی خاصانِ حق کو کچھ حجاب​
ایک تھا پیشِ پیمبر زیرِ پا بالائے سر​
دعوئ تشنہؔ(1) سے اے تسلیمؔ لکھی یہ غزل​
ورنہ مہمل ہے سراسر زیرِ پا بالائے سر​
تسلیمؔ لکھنوی​
(1) شاید ذوق کے شاگرد محمد علی تشنہؔ کا ذکر ہے۔

تسلیمؔ لکھنوی کا اصلی نام احمد حسین تھا جب کہ قلمی نام منشی امیر اللہ تھا، تسلیمؔ تخلص کرتے تھے اور لکھنؤ سے تعلق تھا لہٰذا منشی امیر اللہ تسلیمؔ لکھنوی کہلائے۔ آپ 1819 عیسوی میں پیداہوئے اور وفات کا سن 1911 عیسوی ہے۔
تسلیم لکھنوی کا سلسلہ نواب اصغر علی خان نسیمؔ دہلوی، حکیم مومن خان مومنؔ دہلوی، شاہ نصیرؔ دہلوی، میر محمدی مائلؔ، مولوی قیام الدین قائمؔ چاند پوری اور مرزا محمد رفیع سوداؔ سے ہوتا ہوا شاہ ظہور الدین حاتمؔ سے جا ملتا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ واہ کیا خوبصورت انتخاب ہے۔
تسلیمؔ بلا شبہ بہت بڑے استاد تھے۔ کیا ہی دشوار ردیف کو کس روانی سے نبھایا ہے تمام اشعار میں کہ ایک جگہ بھی ردیف اضافی محسوس نہیں ہوتی۔ سبحان اللہ!
 

طارق شاہ

محفلین
بہت شکریہ گیلانی صاحبہ
اس خوب و مربوط غزل کو یہاں پیش کرنے پر
بہت عمدہ، بہت خوب
تشکّر
بہت شاداں رہیں
۔۔۔۔۔۔۔
اور ساتھ ہی ممنون ہوں خلیل الرحمٰن صاحب کا ، لنک کی عنایت پر
کہ جس سے معلومات میں اور اضافہ ہوا ، نہ صرف تسلیم لکھنوی صاحب کا مزید کلام پڑھنے کو ملا
بلکہ اس سے بھی واقفیت ہوئی کہ موصوف ، مولانا حسرت موہانی کے صنفِ سُخن کے استاد تھے
تشکّر
 
واہ واہ واہ کیا خوبصورت انتخاب ہے۔
تسلیمؔ بلا شبہ بہت بڑے استاد تھے۔ کیا ہی دشوار ردیف کو کس روانی سے نبھایا ہے تمام اشعار میں کہ ایک جگہ بھی ردیف اضافی محسوس نہیں ہوتی۔ سبحان اللہ!
بہت شکریہ فاتح صاحب !
 
بہت شکریہ گیلانی صاحبہ
اس خوب و مربوط غزل کو یہاں پیش کرنے پر
بہت عمدہ، بہت خوب
تشکّر
بہت شاداں رہیں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اور ساتھ ہی ممنون ہوں خلیل الرحمٰن صاحب کا ، لنک کی عنایت پر
کہ جس سے معلومات میں اور اضافہ ہوا ، نہ صرف تسلیم لکھنوی صاحب کا مزید کلام پڑھنے کو ملا
بلکہ اس سے بھی واقفیت ہوئی کہ موصوف ، مولانا حسرت موہانی کے صنفِ سُخن کے استاد تھے
تشکّر
انتخاب کی پذیرائی پر ممنون ہوں شاہ صاحب !
 
Top