امین شارق
محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
چاند تاروں نہ چمن زاروں سے
جی بہلتا نہیں نظاروں سے
تیرے دیدار کی عادت ہے مُجھے
کوئی حاجت نہیں گُل زاروں سے
پاس آتے نہیں شکایت ہے
لب کو میرے، ترے رُخساروں سے
تُم نہیں آتے جب تو ہم شب بھر
کرتے ہیں باتیں چاند تاروں سے
جو مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آتے
کرتے ہیں بات اُن اِشاروں سے
مِلتی ہے اِس سے یار کی رغبت
ہے ہمیں فائدہ خساروں سے
اپنی قِسمت میں ہی سکُون نہیں
کوئی شِکوہ نہیں سِتاروں سے
جب ہے تقدیر میں خِزاں اپنی
مِنتیں کیا کریں بہاروں سے؟
یہ مُحافظ ہیں گُل کی عِزت کے
ہے مُحبت گُلوں کو خاروں سے
یار جو حاسد و مُنافق ہیں
ہیں عدُو خُوب ایسے یاروں سے
ڈُوبنے والے پہ ہے کیا بِیتی
کیا کِسی کو خبر کِناروں سے
بھاگ جائیں گے یہ سارے گِیدڑ
شیر جب نکلیں گے کچھاروں سے
عِشق میں پھنس گئے جو وہ اس کے
کب نکل پائیں گے حِصاروں سے
دیکھ پروانے جل کے کہتے ہیں
عِشق ڈرتا نہیں انگاروں سے
ساقیا کُچھ تو اعلیٰ ظرفی رکھ
جام مت چِھینو بادہ خواروں سے
شُکر شارؔق ہے میرے رب کا بہت
میں ہوں بہتر کئی ہزاروں سے
جی بہلتا نہیں نظاروں سے
تیرے دیدار کی عادت ہے مُجھے
کوئی حاجت نہیں گُل زاروں سے
پاس آتے نہیں شکایت ہے
لب کو میرے، ترے رُخساروں سے
تُم نہیں آتے جب تو ہم شب بھر
کرتے ہیں باتیں چاند تاروں سے
جو مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آتے
کرتے ہیں بات اُن اِشاروں سے
مِلتی ہے اِس سے یار کی رغبت
ہے ہمیں فائدہ خساروں سے
اپنی قِسمت میں ہی سکُون نہیں
کوئی شِکوہ نہیں سِتاروں سے
جب ہے تقدیر میں خِزاں اپنی
مِنتیں کیا کریں بہاروں سے؟
یہ مُحافظ ہیں گُل کی عِزت کے
ہے مُحبت گُلوں کو خاروں سے
یار جو حاسد و مُنافق ہیں
ہیں عدُو خُوب ایسے یاروں سے
ڈُوبنے والے پہ ہے کیا بِیتی
کیا کِسی کو خبر کِناروں سے
بھاگ جائیں گے یہ سارے گِیدڑ
شیر جب نکلیں گے کچھاروں سے
عِشق میں پھنس گئے جو وہ اس کے
کب نکل پائیں گے حِصاروں سے
دیکھ پروانے جل کے کہتے ہیں
عِشق ڈرتا نہیں انگاروں سے
ساقیا کُچھ تو اعلیٰ ظرفی رکھ
جام مت چِھینو بادہ خواروں سے
شُکر شارؔق ہے میرے رب کا بہت
میں ہوں بہتر کئی ہزاروں سے