چاند تارے جب آنگن سے گزرتے ہوں گے ۔ محمود شام

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

چاند تارے جب آنگن سے گزرتے ہوں گے
شام وہ لوگ ہمیں یاد تو کرتے ہونگے


ایک یہ صبح کہ ویراں ہے گزرگاہ خیال
ایک وہ صبح جہاں بال سنورتے ہوں گے


جب کبھی چوڑیاں ٹکرا کے کھنکتی ہوں گی
گھر کی تنہائی میں کیا رنگ بکھرتے ہوں گے


گدگداتا تو انہیں ہوگا کبھی اپنا خیال
ان کے ہونٹوں پہ بھی کچھ گیت ابھرتے ہوں گے


پڑتی ہوگی جو کبھی فون پہ بھولے سے نظر
بیتے لمحیں انہیں بے چین تو کرتے ہوں گے


پگلی یادیں انہیں آ لیتی تو ہوں گی یک بار
بھولے رستوں پہ کبھی پاؤں جو دھرتے ہوں گے


ایک یہ شام کہ بھیگی ہوئی پلکیں ہیں وہی
ایک وہ شام جہاں چاند اترتے ہوں گے

(محمود شام)
 

محمد وارث

لائبریرین
دراصل مطلع کا پہلا مصرع تھوڑی گڑ بڑ کر رہا ہے، اور اس میں بھی یہ ٹکڑا "چاند تارے جب آنگن' شاید کچھ محذوف ہے یہ کوئی لفظ اور طرح سے ہے!
 
Top