محمد شکیل خورشید
محفلین
ایک تازہ غزل پیشِ خدمت ہے
اساتذہ و احباب کے ذوق کی نذر
چاند مانگو تو مل نہیں جاتا
زخم خود سے ہی سل نہیں جاتا
عارضی سا سکوں تو ملتا ہے
غم مگر مستقل نہیں جاتا
مرحلے لاکھ پیش آتے ہیں
پھول یک دم ہی کھل نہیں جاتا
ساتھ دیتا ہے غم گسار کوئی
خود بخود درد دل نہیں جاتا
کام کرتا ہے تیشہِ فرہاد
سنگ خود سے تو ہل نہیں جاتا
چل تو دوں کوئے عشق کی جانب
یہ دلِ منفعل نہیں جاتا
رونقیں اب بھی ہیں جہاں میں شکیل
اس طرف اب یہ دل نہیں جاتا
اساتذہ و احباب کے ذوق کی نذر
چاند مانگو تو مل نہیں جاتا
زخم خود سے ہی سل نہیں جاتا
عارضی سا سکوں تو ملتا ہے
غم مگر مستقل نہیں جاتا
مرحلے لاکھ پیش آتے ہیں
پھول یک دم ہی کھل نہیں جاتا
ساتھ دیتا ہے غم گسار کوئی
خود بخود درد دل نہیں جاتا
کام کرتا ہے تیشہِ فرہاد
سنگ خود سے تو ہل نہیں جاتا
چل تو دوں کوئے عشق کی جانب
یہ دلِ منفعل نہیں جاتا
رونقیں اب بھی ہیں جہاں میں شکیل
اس طرف اب یہ دل نہیں جاتا