چاہتوں کے بعد بھی وہ بن گئے ہیں اجنبی---برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
----------
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
-------
چاہتوں کے بعد بھی وہ بن گئے ہیں اجنبی
وہ محبّت ان کی شائد مجھ سے تھی ہی دل لگی
---------------
ان کو دولت چاہئے تھی پاس میرے جو نہیں
بن گئے ہیں اجنبی اب کہاں ہے دوستی
---------------یا
بن گئے ہیں غیر جیسے اب کہاں ہے دوستی
-------------------
چار دن کے حسن پر وہ اس قدر مغرور تھے
ہم کو ایسے دیکھتے تھے ہم ہیں جیسے اجنبی
------------
حسن چھینا وقت نے ہے جس پہ اُن کو مان تھا
مان ان کا چھن گیا ہے اب کہاں وہ دل کشی
------------یا
جسم ڈھیلا پڑ گیا ہے اب کہاں وہ دلکشی
------------------
جو تکبّر میں پڑا ہو اس کو روکو دوستو
جو ملا ہے اس جہاں میں ہے سبھی وہ عارضی
------------------
ساتھ دیں گی وہ ہی تیرا جو ہیں تیری نیکیاں
یومِ محشر ساتھ تیرے ہو گی وہ ہی روشنی
-----------یا
یومِ محشر ساتھ تیرے ہو گی وہ ہی روشنی
-------------
جن کی خاطر رب کو بھولے وہ کہاں ہیں محفلیں
دل پہ چھائی ما یوسیاں اب ہے حالت دیدنی
---------یا
دل پہ چھائی بے دلی ہے اب ہے حالت دیدنی
-----------------
آدمی کی دشمنی کیوں آدمی کے ساتھ ہے
حل نکالو کوئی اس کا مسئلہ ہے عالمی
------------------
دل سے ارشد کے ہے نکلی بس خدایا یہ دعا
تیری یادوں میں ہی گزرے میری باقی زندگی
 

عظیم

محفلین
چاہتوں کے بعد بھی وہ بن گئے ہیں اجنبی
وہ محبّت ان کی شائد مجھ سے تھی ہی دل لگی
--------------- 'چاہتوں' سے یہ واضح نہیں لگتا کہ ایک دوسرے کی چاہت یا آپس میں محبت، 'مدتوں' بہتر ہو سکتا ہے
دوسرے میں 'وہ محبت' سے بھی بات واضح نہیں لگتی کہ کون سی محبت تھی
شاید 'اور' بہتر رہے۔ یا کچھ اور سوچیں

ان کو دولت چاہئے تھی پاس میرے جو نہیں
بن گئے ہیں اجنبی اب کہاں ہے دوستی
---------------یا
بن گئے ہیں غیر جیسے اب کہاں ہے دوستی
------------------- پہلے مین 'جو' طویل ہونے کی وجہ سے روانی متاثر کر رہا ہے۔ اور 'نہیں' سے زمانے کا فرق بھی آتا ہے مثلاً 'ان کو دولت چاہیے تھی' کے ساتھ 'جو پاس میرے نہیں تھی' ہونا تھا۔
'جو نہیں' کی جگہ 'جو نہ تھی' کیا جا سکتا ہے
دوسرا مصرع اصل تو بحر سے خارج ہے۔ متبادل کے ساتھ بھی دو لخت لگ رہا ہے۔ اس کے علاوہ 'اب کہاں ہے دوستی' بے معنی سا لگتا ہے

چار دن کے حسن پر وہ اس قدر مغرور تھے
ہم کو ایسے دیکھتے تھے ہم ہیں جیسے اجنبی
------------ 'ہم ہیں' کی بجائے 'ہم ہوں' کا محل معلوم ہوتا ہے

حسن چھینا وقت نے ہے جس پہ اُن کو مان تھا
مان ان کا چھن گیا ہے اب کہاں وہ دل کشی
------------یا
جسم ڈھیلا پڑ گیا ہے اب کہاں وہ دلکشی
------------------ 'نے ہے' اچھا نہیں لگ رہا۔ 'ہے' کو ہٹا کر 'وہ' لایا جا سکتا ہے۔ دوسرے مصرع کا متبادل بہتر ہے

جو تکبّر میں پڑا ہو اس کو روکو دوستو
جو ملا ہے اس جہاں میں ہے سبھی وہ عارضی
------------------ دونوں مصرعے 'جو' سے شروع ہوتے ہیں جو شاید اچھا نہ رہے۔ پہلے کو
ہو تکبر میں پڑا جو... کیا جا سکتا ہے
لیکن دوسرے کے دوسرے ٹکڑے میں الفاظ کی ترتیب اچھی نہیں
اور 'سبھی' ان معنوں میں درست نہیں لگتا
'وہ ہے سب کچھ عارضی' کیا جا سکتا ہے

ساتھ دیں گی وہ ہی تیرا جو ہیں تیری نیکیاں
یومِ محشر ساتھ تیرے ہو گی وہ ہی روشنی
-----------یا
یومِ محشر ساتھ تیرے ہو گی وہ ہی روشنی
------------- 'ساتھ' اور 'وہ ہی' کے دوہرائے جانے کے علاوہ 'وہ ہی روشنی' واضح نہیں لگتا۔ 'ان کی روشنی' وغیرہ چل سکتا ہے
مکمل شعر دوبارہ کہنے کی کوشش کریں

جن کی خاطر رب کو بھولے وہ کہاں ہیں محفلیں
دل پہ چھائی ما یوسیاں اب ہے حالت دیدنی
---------یا
دل پہ چھائی بے دلی ہے اب ہے حالت دیدنی
----------------- 'وہ کہاں ہیں' کی بہ نسبت 'ہیں کہاں وہ' زیادہ معنی خیز لگتا ہے
دوسرا مصرع اصل تو بحر سے خارج ہے اور متبادل میں بے ربطی ہے
'بے دلی' کس وجہ سے چھائی ہے؟

آدمی کی دشمنی کیوں آدمی کے ساتھ ہے
حل نکالو کوئی اس کا مسئلہ ہے عالمی
------------------ خوب

دل سے ارشد کے ہے نکلی بس خدایا یہ دعا
تیری یادوں میں ہی گزرے میری باقی زندگی
۔۔۔ یہ بھی
 

الف عین

لائبریرین
-------
چاہتوں کے بعد بھی وہ بن گئے ہیں اجنبی
وہ محبّت ان کی شائد مجھ سے تھی ہی دل لگی
--------------- دو لخت ہے، پہلے مصرع میں بھی اور دوسرے میں ہی کی معنویت نہیں سمجھ سکا

ان کو دولت چاہئے تھی پاس میرے جو نہیں
بن گئے ہیں اجنبی اب کہاں ہے دوستی
---------------یا
بن گئے ہیں غیر جیسے اب کہاں ہے دوستی
------------------- اولی کی روانی اس طرح بہتر ہے
.... پاس میرے جو نہ تھی
ثانی کا پہلا متبادل مصرع بحر سے خارج ہے، دوسرا بھی
غیر جیسے بن گئے وہ،....
بہتر ہو گا

چار دن کے حسن پر وہ اس قدر مغرور تھے
ہم کو ایسے دیکھتے تھے ہم ہیں جیسے اجنبی
------------ ٹھیک. 'جیسے ہم ہوں اجنبی' زیادہ بہتر ہو گا

حسن چھینا وقت نے ہے جس پہ اُن کو مان تھا
مان ان کا چھن گیا ہے اب کہاں وہ دل کشی
------------یا
جسم ڈھیلا پڑ گیا ہے اب کہاں وہ دلکشی
------------------ جسم ڈھیلا والا مصرع بیکار ہے ۔ مان کے ساتھ چھن لفظ دہراؤ مت۔ مٹ. کھو وغیرہ استعمال کیا جا سکتا ہے

جو تکبّر میں پڑا ہو اس کو روکو دوستو
جو ملا ہے اس جہاں میں ہے سبھی وہ عارضی
------------------ دو لخت

ساتھ دیں گی وہ ہی تیرا جو ہیں تیری نیکیاں
یومِ محشر ساتھ تیرے ہو گی وہ ہی روشنی
-----------یا
یومِ محشر ساتھ تیرے ہو گی وہ ہی روشنی
------------- وہ ہی کا ذکر کئی بار کر چکا ہوں لیکن وہی غلطی پھر کر رہے ہیں دونوں مصرعوں میں

جن کی خاطر رب کو بھولے وہ کہاں ہیں محفلیں
دل پہ چھائی ما یوسیاں اب ہے حالت دیدنی
---------یا
دل پہ چھائی بے دلی ہے اب ہے حالت دیدنی
----------------- اس میں بھی ربط نہیں سمجھ سکا
دیدنی تو اچھی حالت بھی ہو سکتی ہے

آدمی کی دشمنی کیوں آدمی کے ساتھ ہے
حل نکالو کوئی اس کا مسئلہ ہے عالمی
------------------ تھیک

دل سے ارشد کے ہے نکلی بس خدایا یہ دعا
تیری یادوں میں ہی گزرے میری باقی زندگی
... یادیں کس کی؟ محبوب کی یا خدا کی۔ خدا کی یاد کی جگہ خدا کے ذکر کی بات کریں۔ پہلا بھی
دل سے ارشد کے نکلتی ہے.... بہتر اور رواں نہیں؟
 
الف عین
عظیم
( اصلاح کے بعد صحیح اشعار کے علاوہ )
-----------
مُدّتوں کے بعد بھی وہ بن گئے ہیں اجنبی
مجھ سے الفت اُن کی شائد تھی ہی جیسے دل لگی
-------------
اُن کو دولت کی ہوس تھی جو نہ ان کو دے سکا
میری غربت دیکھتے ہی مجھ سے چھوڑی دوستی
-------------
چار دن کے حسن پر وہ اس قدر مغرور تھے
ہم کو ایسے دیکھتے تھے ہم ہوں جیسے اجنبی
-----------
ھُسن چھینا وقت نے ہے جس پر ان کو مان تھا
کھو چکا ہے حسن ان کا اب کہاں وہ دلکشی
------------
جب کہ اپنا کچھ نہیں ہے پھر تکبّر کیوں کریں
جو ملا ہے اس جہاں میں وہ ہے سب کچھ عارضی
---------------------
ساتھ دیں گی وہ ہی تیرا جو کمائی نیکیاں
قبر میں بھی وہ ملیں گی بن کے تجھ کو روشنی
------------یا
حشر میں وہ تیرے آگے ہوں گی بن کر روشنی
-------------------
جن کی خاطر رب کو بھولے کب وہ تیرے ساتھ تھے
ساتھ چھوڑا دیکھ کرجب تجھ پہ آئی مفلسی
-------------
آج ارشد مانگتا ہے اپنے رب سے یہ دعا
اُس کی یادوں میں ہی گزرے باقی میری زندگی
---------یا
رب کی یادوں میں ہی گزرے باقی میری زندگی
---------------------
 

عظیم

محفلین
مُدّتوں کے بعد بھی وہ بن گئے ہیں اجنبی
مجھ سے الفت اُن کی شائد تھی ہی جیسے دل لگی
------------- دوسرے مصرع میں 'ہی' کے بارے میں بابا کی اصلاح پر بھی غور کریں۔

اُن کو دولت کی ہوس تھی جو نہ ان کو دے سکا
میری غربت دیکھتے ہی مجھ سے چھوڑی دوستی
------------- ٹھیک

چار دن کے حسن پر وہ اس قدر مغرور تھے
ہم کو ایسے دیکھتے تھے ہم ہوں جیسے اجنبی
----------- درست

ھُسن چھینا وقت نے ہے جس پر ان کو مان تھا
کھو چکا ہے حسن ان کا اب کہاں وہ دلکشی
------------ اب 'حسن' دوہرایا گیا ہے! روپ وغیرہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے

جب کہ اپنا کچھ نہیں ہے پھر تکبّر کیوں کریں
جو ملا ہے اس جہاں میں وہ ہے سب کچھ عارضی
--------------------- 'جب کہ' کی جگہ 'جب ہمارا' بہتر ہو گا

ساتھ دیں گی وہ ہی تیرا جو کمائی نیکیاں
قبر میں بھی وہ ملیں گی بن کے تجھ کو روشنی
------------یا
حشر میں وہ تیرے آگے ہوں گی بن کر روشنی
------------------- پہلے میں ابھی بھی 'وہ ہی' بجائے 'وہی' کے ہے!

جن کی خاطر رب کو بھولے کب وہ تیرے ساتھ تھے
ساتھ چھوڑا دیکھ کرجب تجھ پہ آئی مفلسی
------------- 'ساتھ تھے' میں 'ساتھ ہیں' درست ہو گا۔
ثانی میں 'ساتھ' دوبارہ آ گیا ہے۔

آج ارشد مانگتا ہے اپنے رب سے یہ دعا
اُس کی یادوں میں ہی گزرے باقی میری زندگی
---------یا
رب کی یادوں میں ہی گزرے باقی میری زندگی
--------------------- 'باقی میری زندگی' نہیں "میری باقی زندگی"
 
الف عین
عظیم
(اصلاح کے بعد )
مُدّتوں کے بعد بھی وہ بن گئے ہیں اجنبی
ان کی الفت مجھ سے اب تک جیسے تھی اک دل لگی
-------------
اُن کو دولت کی ہوس تھی جو نہ ان کو دے سکا
میری غربت دیکھتے ہی مجھ سے چھوڑی دوستی
------------- ٹھیک
چار دن کے حسن پر وہ اس قدر مغرور تھے
ہم کو ایسے دیکھتے تھے ہم ہوں جیسے اجنبی
----------- درست
روپ چھینا وقت نے ہے جس پر ان کو مان تھا
کھو چکا ہے حسن ان کا اب کہاں وہ دلکشی
-----------
جب ہمارا کچھ نہیں ہے پھر تکبّر کیوں کریں
جو ملا ہے اس جہاں میں وہ ہے سب کچھ عارضی
---------------------
بس وہی ہیں ساتھ تیرے جو کمائی نیکیاں
حشر میں وہ تیرے آگے ہوں گی بن کر روشنی
-------------------
جن کی خاطر رب کو بھولے کب وہ تیرے ساتھ ہیں
تجھ کو چھوڑا دیکھ کرجب تجھ پہ آئی مفلسی
-------------
آج ارشد مانگتا ہے اپنے رب سے یہ دعا
اُس کی یادوں میں ہی گزرے میری باقی زندگی
---------یا
رب کی یادوں میں ہی گزرے میری باقی زندگی
---------------------
 

الف عین

لائبریرین
مُدّتوں کے بعد بھی وہ بن گئے ہیں اجنبی
ان کی الفت مجھ سے اب تک جیسے تھی اک دل لگی
------------- بھی' کو چھوڑ کر پہلے مصرع کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ پہلے بہت دوستی اور چاہت کا مظاہرہ کرتے تھے مگر اب اجنبی لگنے لگے ہیں۔ اگر یہی مفہوم ہے تو بھی کی بجائے' اب' استعمال کریں۔' بھی' سے یوں لگتا ہے کہ لمبے عرصے کے بعد بھی پہلے کی طرح اجنبی ہیں، جب کہ دوسرے مصرعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ہی یہ تبدیلی واقع ہوئی ہے

اُن کو دولت کی ہوس تھی جو نہ ان کو دے سکا
میری غربت دیکھتے ہی مجھ سے چھوڑی دوستی
------------- ٹھیک

چار دن کے حسن پر وہ اس قدر مغرور تھے
ہم کو ایسے دیکھتے تھے ہم ہوں جیسے اجنبی
----------- درست
روپ چھینا وقت نے ہے جس پر ان کو مان تھا
کھو چکا ہے حسن ان کا اب کہاں وہ دلکشی
----------- 'وقت نے ہے' اچھا نہیں لگ رہا
وقت نے وہ روپ چھینا.... بہتر ہو گا
چھین لیا لا سکیں تو اور بھی بہتر ہو

جب ہمارا کچھ نہیں ہے پھر تکبّر کیوں کریں
جو ملا ہے اس جہاں میں وہ ہے سب کچھ عارضی
---------------------
بس وہی ہیں ساتھ تیرے جو کمائی نیکیاں
حشر میں وہ تیرے آگے ہوں گی بن کر روشنی
------------------- پہلے مصرع کی گرامر گڑبڑ ہے، نثر یوں ہونی چاہیے کہ جو نیکیاں کبھی کمائی تھیں، بس وہی تیرے ساتھ رہیں گی
دوسرا
حشر میں آگے چلیں گی تیرے بن...
بہتر اور حدیث کے الفاظ کے مطابق ہو گا

جن کی خاطر رب کو بھولے کب وہ تیرے ساتھ ہیں
تجھ کو چھوڑا دیکھ کرجب تجھ پہ آئی مفلسی
-------------
آج ارشد مانگتا ہے اپنے رب سے یہ دعا
اُس کی یادوں میں ہی گزرے میری باقی زندگی
---------یا
رب کی یادوں میں ہی گزرے میری باقی زندگی
---------------- یاد اور یادوں میں فرق ہے۔ اللہ کو یاد کیا جا سکتا ہے کہ اس محاورے کا مطلب ہے اس کا ذکر کرنا، تسبیح و تہلیل کرنا۔ ہاں، محبوب کو یاد بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کی یادوں میں وقت گزارا جا سکتا ہے کہ اس دن یوں ہوا تھا، اس مقام پر ہم ساتھ تھے جس میں بھی محبوب سے متعلق کوئی وقوعہ ہو، اس واقعے کو یاد کءا جا سکتا ہے ۔ لیکن اللہ کے ساتھ یہ سب نہیں سوچا جا سکتا۔ دوسرے مصرعے کی گرامر بھی عجیب ہے۔ اگر اسے تخاطبی نشانات سے محصور کر دیا جائے تو ' "تیری یاد/ذکر میں ہی میری زندگی گزرے" اور تخاطبی نشان نہ ہوں تو میری زندگی کی جگہ' اس کی زندگی' ہونا چاہیے اور اس صورت میں اللہ یا رب کی یاد یا ذکر ضروری ہے بیانیہ میں،' اس کی یادوں' نہیں۔
 
الف عین
-----------
مُدّتوں کے بعد اب وہ بن گئے ہیں اجنبی
ان کی الفت مجھ سے اب تک جیسے تھی اک دل لگی
-----------
وقت نے وہ روپ چھینا جس پر ان کو مان تھا
کھو چکا ہے حسن ان کا اب کہاں وہ دلکشی
----------
وہ تمہارے ساتھ ہوں گی جو کمائی نیکیاں
حشر میں آگے چلیں گی تیری بن کر روشنی
--------
( محترم۔السلام علیکم۔۔سورۃ الحدید کی آیت نمبر 11۔۔جس کا ترجمہ ہے۔۔تُو اس دن دیکھے گا ایمان والوں اور
ایمان والیوں کو اس حال میں کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کے دائیں ان کے ساتھ چل رہا ہو گا)
میں نے اس بات کو اپنے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کی تھی یا یوں سمجھیں کہ اس سے ماخوذ تھی،لیکن آپ نے جس ترتیب میں الفاظ لکھے ہیں وہ بات ترجمے سے اور قریب ہو گئی ہے۔
ماشاءاللہ استاد تو استاد ہی ہوتا ہے بہت شکریہ)
-----------
آج ارشد مانگتا ہے تجھ سے یا رب یہ دعا
یاد میں تیری ہی گزرے اس کی باقی زندگی
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کے ثانی مصرع پر پہلے غور نہیں کیا تھا۔ رواں نہیں ہے یہ۔ دل لگی جیسے الفاظ کے ساتھ فارسی الفت کی جگہ ہندی چاہت بہتر ہو گا
مجھ سے اب تک ان کی چاہت... بہتر ہو گا
تمہارے استاد محترم کا یہ تو حال ہے کہ قران اور حدیث میں کنفیوز ہو جاتے ہیں! زیادہ مطالعے کا یہ نقصان ہے شاید! بہر حال آگے چلنے کے الفاظ یاد تھے مجھے اور اسی لیے الفاظ بدلے تھے
لیکن پہلا مصرع اب بھی میری مرضی کے مطابق نہیں ہوا۔ 'جو کمائی نیکیاں' یا درست 'جو کمائیں نیکیاں' کی جگہ ماضی بعید کا صیغہ آنا چاہیے، کمائی تھیں نیکیاں'
شاید یہ مصرع بہتر ہو
ساتھ وہ اعمال ہوں گے بس جو پہلے تھے کیے
یا نیکیاں بھی لا سکتے ہیں مگر کمائی کی جگہ' کی' فعل کے ساتھ
باقی اشعار ٹھیک ہو گئے ہیں
 
Top