نمرہ
محفلین
چاہے جو تُو، تو ارض کا منظر سنوار دے
وسطِ خزاں میں روپ چمن کا نکھار دے
دے سر پہ دھوپ، پاؤں کے چھالوں کو خار دے
منزل تو دے کوئی، بھلے سورج کے پار دے
بندش نہیں ہے کوئی بھی تیری زبان پر
بے شک کسی کی روح میں خنجر اتار دے
ان کو عطا ہوئے ہیں طریقِ ستم نئے
یا رب! مجھے بھی حوصلہ اب بے کنار دے
کس طرح دیکھ پائیں گے پھر خونِ آرزو
کوئی نہ اب دوبارہ نوید ِ بہار دے
گر زندگی ہے شعلے کی مانند عارضی
پھر سوزِ دروں بھی تو مثالِ شرار دے
واں آرزو کہ روک لے دستِ ستم کوئی
اصرار یاں کہ لطفِ ستم بار بار دے
حاجت نہیں جنوں کو کسی چارہ ساز کی
دینا ہو گر تو ہم نفس دے ، رازدار دے
کس جان کے دشمن نے دیا تھا یہ مشورہ
اپنی انا بھی عشق کی بازی میں ہار دے؟