چاہے جو تُو تو ارض کا منظر سنوار دے۔۔برائے صلاح، اصلاح اور تنقید

نمرہ

محفلین
چاہے جو تُو، تو ارض کا منظر سنوار دے​
وسطِ خزاں میں روپ چمن کا نکھار دے​
دے سر پہ دھوپ، پاؤں کے چھالوں کو خار دے​
منزل تو دے کوئی، بھلے سورج کے پار دے​
بندش نہیں ہے کوئی بھی تیری زبان پر​
بے شک کسی کی روح میں خنجر اتار دے​
ان کو عطا ہوئے ہیں طریقِ ستم نئے​
یا رب! مجھے بھی حوصلہ اب بے کنار دے​
کس طرح دیکھ پائیں گے پھر خونِ آرزو​
کوئی نہ اب دوبارہ نوید ِ بہار دے​
گر زندگی ہے شعلے کی مانند عارضی​
پھر سوزِ دروں بھی تو مثالِ شرار دے​
واں آرزو کہ روک لے دستِ ستم کوئی​
اصرار یاں کہ لطفِ ستم بار بار دے​
حاجت نہیں جنوں کو کسی چارہ ساز کی​
دینا ہو گر تو ہم نفس دے ، رازدار دے​
کس جان کے دشمن نے دیا تھا یہ مشورہ​
اپنی انا بھی عشق کی بازی میں ہار دے؟​
 
مطلع نامکمل سا ہے۔

کس طرح دیکھ پائیں گے پھر خونِ آرزو
کوئی نہ اب دوبارہنوید ِ بہار دے
'پھر' اور 'دوبارہ' کی علیحدہ علیحدہ ضرورت نہیں۔

پھر سوزِ دروں بھی تو مثالِ شرار دے
مصرع بے وزن ہے، نظرِ ثانی کریں۔

حاجت نہیں جنوں کو کسی چارہ ساز کی
دینا ہو گر تو ہم نفس دے ، رازدار دے
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
آپ نے چارہ ساز کی جگہ ہم نفس چاہا لیکن اس سے پہلے غالب ناصح کی جگہ چارہ ساز مانگ چکے ہیں سو آپ مضمون نیا کریں۔

کس جان کے دشمن نے دیا تھا یہ مشورہ
مصرع بے وزن ہے، نظرِ ثانی کریں۔

میری طرف سے اتنا ہی، اساتذہ کا انتظار کریں۔ وہ بہتر رہنمائی کریں گے۔
 
چاہے جو تُو، تو ارض کا منظر سنوار دے​
وسطِ خزاں میں روپ چمن کا نکھار دے​
دے سر پہ دھوپ، پاؤں کے چھالوں کو خار دے​
منزل تو دے کوئی، بھلے سورج کے پار دے​
بندش نہیں ہے کوئی بھی تیری زبان پر​
بے شک کسی کی روح میں خنجر اتار دے​
ان کو عطا ہوئے ہیں طریقِ ستم نئے​
یا رب! مجھے بھی حوصلہ اب بے کنار دے​
کس طرح دیکھ پائیں گے پھر خونِ آرزو​
کوئی نہ اب دوبارہ نوید ِ بہار دے​
گر زندگی ہے شعلے کی مانند عارضی​
پھر سوزِ دروں بھی تو مثالِ شرار دے​
واں آرزو کہ روک لے دستِ ستم کوئی​
اصرار یاں کہ لطفِ ستم بار بار دے​
حاجت نہیں جنوں کو کسی چارہ ساز کی​
دینا ہو گر تو ہم نفس دے ، رازدار دے​
کس جان کے دشمن نے دیا تھا یہ مشورہ​
اپنی انا بھی عشق کی بازی میں ہار دے؟​

واہ واہ. صوفی نمرہ کی جے ہو :D

مجموعی طور پر غزل اچھی ہے. تفصیل سے کچھ باتیں لکھنا چاہ رہا ہوں مگر وقت کی قلت ہے. بعد میں آتا ہوں. ایک مصرع اور بھی بے وزن ہے منیب نے جو بتایا اس کے علاوہ.
 

نمرہ

محفلین
مطلع نامکمل سا ہے۔

کس طرح دیکھ پائیں گے پھر خونِ آرزو
کوئی نہ اب دوبارہنوید ِ بہار دے
'پھر' اور 'دوبارہ' کی علیحدہ علیحدہ ضرورت نہیں۔

پھر سوزِ دروں بھی تو مثالِ شرار دے
مصرع بے وزن ہے، نظرِ ثانی کریں۔

حاجت نہیں جنوں کو کسی چارہ ساز کی
دینا ہو گر تو ہم نفس دے ، رازدار دے
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
آپ نے چارہ ساز کی جگہ ہم نفس چاہا لیکن اس سے پہلے غالب ناصح کی جگہ چارہ ساز مانگ چکے ہیں سو آپ مضمون نیا کریں۔

کس جان کے دشمن نے دیا تھا یہ مشورہ
مصرع بے وزن ہے، نظرِ ثانی کریں۔

میری طرف سے اتنا ہی، اساتذہ کا انتظار کریں۔ وہ بہتر رہنمائی کریں گے۔
بہت شکریہ تفصیلاَ نشان دہی کرنے کا۔ 'کس طرح دیکھ پائیں گے پھر خونِ آرزو' میں 'پھر' کی جگہ 'ہم' استعمال کیا جا سکتا ہے۔ غالب کا شعر ذہن میں تھا مگر میرا خیال تھا کہ میرا باندھا گیا مضمون ذرا مختلف ہے۔ بے وزنی کا تو ابھی علاج ہو جاتا ہے۔
گر زندگی ہے شعلے کی مانند عارضی
سوزِ دروں بھی مجھ کو مثالِ شرار دے
حاجت نہیں جنوں کو کسی چارہ ساز کی
گر دے تو ہم نفس دے ، کوئی رازدار دے
دیتا تھا کوئی جان کا دشمن یہ مشورہ
اپنی انا بھی عشق کی بازی میں ہار دے
 

الف عین

لائبریرین
چاہے جو تُو، تو ارض کا منظر سنوار دے
وسطِ خزاں میں روپ چمن کا نکھار دے
//درست

دے سر پہ دھوپ، پاؤں کے چھالوں کو خار دے
منزل تو دے کوئی، بھلے سورج کے پار دے
//’بھلے‘ کی ے گرنا اچھا نہیں لگ رہا۔ اس کو یوں کر دو:
منزل دے کوئی،چاہے وہ سورج کے پار دے

بندش نہیں ہے کوئی بھی تیری زبان پر
بے شک کسی کی روح میں خنجر اتار دے
//درست

ان کو عطا ہوئے ہیں طریقِ ستم نئے
یا رب! مجھے بھی حوصلہ اب بے کنار دے
// ان کو عطا کرے جو طریقِ ستم نئے
یا رب! مجھے بھی حوصلۂ بے کنار دے
زیادہ بہتر ہے

کس طرح دیکھ پائیں گے پھر خونِ آرزو
کوئی نہ اب دوبارہ نویدِ بہار دے
//کون دیکھ پائیں گے۔۔۔ ہم؟
تو یوں کہا جائے
ہم کیسےدیکھ پائیں گے پھر خونِ آرزو
یہاں پھر دوبارہ کے مفہوم میں نہیں ہے، اس لئے یہ دہرایا نہیں گیا ہے۔ یہاں شرط محسوس ہو رہی ہے۔

گر زندگی ہے شعلے کی مانند عارضی
سوزِ دروں بھی مجھ کو مثالِ شرار دے
//درست
ویسے یوں بھی ہو سکتا ہے
ہو زندگی جو شعلے کی مانند عارضی

واں آرزو کہ روک لے دستِ ستم کوئی
اصرار یاں کہ لطفِ ستم بار بار دے
//درست، بلکہ واہ واہ!! استادانہ شعر ہے۔

حاجت نہیں جنوں کو کسی چارہ ساز کی
گر دے تو ہم نفس دے ، کوئی رازدار دے
//درست

دیتا تھا کوئی جان کا دشمن یہ مشورہ
اپنی انا بھی عشق کی بازی میں ہار دے
//درست
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ
کیا ہی استادانہ رنگ کی غزل ہے۔ نمرہ صاحبہ اس خوبصورت تخلیق پر مبارکباد
 

نمرہ

محفلین
ان کو عطا ہوئے ہیں طریقِ ستم نئے
یا رب! مجھے بھی حوصلہ اب بے کنار دے
// ان کو عطا کرے جو طریقِ ستم نئے
یا رب! مجھے بھی حوصلۂ بے کنار دے
زیادہ بہتر ہے
کیا یہ صورت بہتر ہے؟
'ان کو عطا کیے ہیں طریقِ ستم نئے
یا رب! مجھے بھی حوصلۂ بے کنار دے'
 
Top