پروین شاکر چراغِ راہ بُجھا کیا ، کہ رہنما بھی گیا

تفسیر

محفلین
چراغِ راہ بُجھا کیا ، کہ رہنما بھی گیا
ہَوا کے ساتھ مسافر کا نقشِ پا بھی گیا

میں پُھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہُوئی
وہ شخص آکے مرے شہر سے چلا بھی گیا

بہت عزیز سہی اُس کو میری دلداری
مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دُکھا بھی گیا

اب اُن دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں
وہ تاک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا

سب آئے میری عیادت کو، وہ بھی آیا
جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گیا

یہ غربتیں مری آنکھوں میں کسی اُتری ہیں
کہ خواب بھی مرے رُخصت ہیں، رتجگا بھی گیا

خوشبو ۔ پروین شاکر
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب تفسیر صاحب، لاجواب غزل ہے پروین شاکر کی۔

اب اُن دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں
وہ تاک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا

کیا ماضی بعید یاد کروا دیا آپ نے، ہائے ہائے :(

۔
 

طارق شاہ

محفلین
پروین شکر بہت خوب افکار کی شاعرہ تھیں، کیا ہی کہنے
۔۔۔۔۔۔
سب آئے میری عیادت کو، وہ بھی آیا
جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گی
۔۔۔۔۔
یہ غربتیں مری آنکھوں میں کسی اُتری ہیں
کہ خواب بھی مرے رُخصت ہیں، رتجگا بھی گیا

بالا دونوں اشعار کے پہلے مصرع میں غلطی درست کردی جائے تو غزل خوب تر ہو جائے گی

سب آئے میری عیادت کو، وہ بھی آیاتھا


یہ غربتیں مِری آنکھوں میں کیسی اُتری ہیں

تشکّر
 
چراغِ راہ بُجھا کیا ، کہ رہنما بھی گیا
ہَوا کے ساتھ مسافر کا نقشِ پا بھی گیا

میں پُھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہُوئی
وہ شخص آکے مرے شہر سے چلا بھی گیا

بہت عزیز سہی اُس کو میری دلداری
مگریہ ہے کہ کبھی دل مرا دُکھا بھی گیا

اب اُن دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں
وہ تاک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا

سب آئے میری عیادت کو� وہ بھی آیا
جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گیا

یہ غربتیں مری آنکھوں میں کسی اُتری ہیں
کہ خواب بھی مرے رُخصت ہیں � رتجگا بھی گیا
 
Top