حسان خان
لائبریرین
چراغِ شب کی طرح تا سحر جلا میں بھی
بجھا جو دل تو اسی رنج میں بجھا میں بھی
قدم قدم پہ شکستہ دلوں کے ساتھ رہا
مثالِ آئینہ بکھرا ہوں بارہا میں بھی
میں شاعری میں فقط میر کا مقلد ہوں
لگا رہا ہوں فقیرانہ اک صدا میں بھی
سماعتوں کو نئی صوتِ زندگی دے کر
لبوں کو سی کے ہُوا آج بے نوا میں بھی
میں شب گزیدہ و آشفتہ سر دریدہ بدن
چلا خمارِ ندامت میں جھومتا میں بھی
بہار مجھ پہ بھی آئی تھی میں بھی مہکا تھا
خزاں کی آنکھ کا کانٹا بنا رہا میں بھی
میں اُس سے خواب میں ملنے کی کر چکا تھا دعا
وگرنہ ہجر میں اُس کے تو جاگتا میں بھی
ادب لکھو گے تو فاقے ستائیں گے ریحان
ہوا ہوا لکھو تم بھی ہوا ہوا میں بھی
(ریحان اعظمی)