چراغِ قیادت - سیماب اکبرآبادی

حسان خان

لائبریرین
ہر طرف قصرِ سیادت میں اندھیرا تھا ابھی
بہرِ تابش جل رہے تھے چھوٹے چھوٹے سے دیے
راستہ تاریک تھا، منزل نظر سے دور تھی
ہر نظر بے تاب تھی نور و تجلی کے لیے

دیکھ کر ظلمت، مشیت نے جلایا اک چراغ
جلوہ آرا، ضوفگن، رخشندہ و تابندہ تر
راہ میں بھٹکے ہوؤں کو اک قیادت مل گئی
وہ قیادت، روشن و گرمِ عمل پائندہ تر

قائدِ اعظم اٹھے بن کر چراغِ رہ گذر
روشنی پھیلی فضا میں قافلے چلنے لگے
آ گئی وہ آ گئی منزل، فضا میں غل ہوا
ہاتھ اپنے راہزن افسوس سے ملنے لگے

قائدِ اعظم نے توڑا، زورِ جادوئے فرنگ
سامنے تصویرِ آزادی نظر آنے لگی
کفر کی ظلمت چَھٹی، ٹوٹے سیاست کے صنم
دشمنوں کو اپنی بربادی نظر آنے لگی

کارواں، ملت کا آ پہنچا 'زمینِ پاک' پر
چاند تارا جگمگایا پرچمِ اسلام کا
بٹ گیا ہندوستاں، کعبہ وفا کا بن گیا
اور آخر پھر گیا رخ گردشِ ایام کا

قائدِ اعظم، وہ مخلص رہنما، تابندہ دل
وہ منور ذہن، وہ روشن نظر، روشن دماغ
روشنی سے اس کی ضو پائیں گے لاکھوں آفتاب
بجھ نہیں سکتا قیامت تک قیادت کا چراغ

(سیماب اکبرآبادی)
۱۹۴۷ء
 
Top