نیرنگ خیال
لائبریرین
چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے
وہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے
مسرتوں میں بھی جاگے گناہ کا احساس
مرے وجود کو اتنی بھی پارسائی نہ دے
بہت ستاتے ہیں رشتے جو ٹوٹ جاتے ہیں
خدا کسی کو بھی توفیق آشنائی نہ دے
میں ساری عمر اندھیروں میں کاٹ سکتا ہوں
مرے دیوں کو مگر روشنی پرائی نہ دے
اگر یہی تری دنیا کا حال ہے مالک
تو میری قید بھلی ہے مجھے رہائی نہ دے
دعا یہ مانگی ہے سہمے ہوئے مؤرخ نے
کہ اب قلم کو خدا سرخ روشنائی نہ دے
معرؔاج فیض آبادی
وہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے
مسرتوں میں بھی جاگے گناہ کا احساس
مرے وجود کو اتنی بھی پارسائی نہ دے
بہت ستاتے ہیں رشتے جو ٹوٹ جاتے ہیں
خدا کسی کو بھی توفیق آشنائی نہ دے
میں ساری عمر اندھیروں میں کاٹ سکتا ہوں
مرے دیوں کو مگر روشنی پرائی نہ دے
اگر یہی تری دنیا کا حال ہے مالک
تو میری قید بھلی ہے مجھے رہائی نہ دے
دعا یہ مانگی ہے سہمے ہوئے مؤرخ نے
کہ اب قلم کو خدا سرخ روشنائی نہ دے
معرؔاج فیض آبادی