مغزل
محفلین
غزل
چراغ واشک و ہوا و ستارا دیکھتا ہوں
میں حسن یار کا ہر استعارا دیکھتا ہوں
جو اِک نظر میں توجہ سمیٹ لیتے ہیں
اسی لئے تو انہیں میں دوبارہ دیکھتا ہوں
نہ کھل سکے ہے زبان و بیاں سے جن کا حال
قریب ہوکے میں اُن کا گزارا دیکھتا ہوں
جسے سمجھتا ہوں منہا وہی ہوا حاصل
یہ زندگی کا عجب گوشوارا دیکھتا ہوں
کشش بھی اپنی جگہ ہے‘نظر بھی اپنی جگہ
درونِ سینہ گل باغ سارا دیکھتا ہوں
ترے حوالے سے انفاس کے سمندر میں
جو لہر اُٹھتی ہے اُس کو کنارا دیکھتا ہوں
یہ اعتبارِ محبت سو یوں بھی ہے یوں بھی
ترا خیال ہے تو استخارا دیکھتا ہوں
نظر ملی ہے تو شاہدحمید روز و شب
ترے وجود کا ہر اِک شمارہ دیکھتا ہوں
شاہد حمید
چراغ واشک و ہوا و ستارا دیکھتا ہوں
میں حسن یار کا ہر استعارا دیکھتا ہوں
جو اِک نظر میں توجہ سمیٹ لیتے ہیں
اسی لئے تو انہیں میں دوبارہ دیکھتا ہوں
نہ کھل سکے ہے زبان و بیاں سے جن کا حال
قریب ہوکے میں اُن کا گزارا دیکھتا ہوں
جسے سمجھتا ہوں منہا وہی ہوا حاصل
یہ زندگی کا عجب گوشوارا دیکھتا ہوں
کشش بھی اپنی جگہ ہے‘نظر بھی اپنی جگہ
درونِ سینہ گل باغ سارا دیکھتا ہوں
ترے حوالے سے انفاس کے سمندر میں
جو لہر اُٹھتی ہے اُس کو کنارا دیکھتا ہوں
یہ اعتبارِ محبت سو یوں بھی ہے یوں بھی
ترا خیال ہے تو استخارا دیکھتا ہوں
نظر ملی ہے تو شاہدحمید روز و شب
ترے وجود کا ہر اِک شمارہ دیکھتا ہوں
شاہد حمید