چراغ ِ شب

رات بھر تاریکیوں پر مسکرائے ہیں چراغ
صبح ِ دم لیکن اجالوں نے بجھائے ہیں چراغ

قریہء غم میں چراغاں کا ہے منظر خواب سا
دل کی دیواروں پہ یادوں نے سجائے ہیں چراغ

زعفراں کی کھیتیوں پر جس طرح آئے بہار
سینہء پرخوں میں ایسے جگمگائے ہیں چراغ

شہسوار ِ آرزو کی برق رفتاری سے آج
دور تک گرد ِ سفر میں تھرتھرائے ہیں چراغ

چشم ِ حیرت سے انہیں کو دیکھتی ہے کائنات
وقت کے دریا میں جو ہم نے بہائے ہیں چراغ

ہم نے صحرا کے سفر کو جگمگانے کے لئے
چاند اور سورج کی مٹی سے بنائے ہیں چراغ

پیکر ِ گل شعلہء خوشبو سے جلتے ہیں غزل
ہم سمجھتے ہیں ہواؤں نے جلائے ہیں چراغ

سیدہ سارا ہاشمی غزل
 
اردو محفل میں خوش آمدید۔ امید ہے کہ یہاں آپ کا وقت بہت اچھا گذرے گا اور ہمیں آپ سے سیکھنے کا موقع میسر آتا رہے گا۔ ہمیں خوشی ہوگی اگر آپ تعارف کے زمرے میں اپنا تعارف کرا سکیں۔ امید ہے کہ آُ کو محفلین کا تعاون حاصل رہے گا۔ کسی بھی مشکل کی صورت میں محفل انتظامیہ سے بلا تکلف رابطہ فرمائیں۔

بڑا خوبصورت اور نپا تلا سا کلام ہے۔ بعض اشعار تو بس لطف ہی دے گئے۔ :)
 
ٓابن سعید صاحب آپ کی پسندیدگی اورحوصلہ افزائی کا بیحد شکریہ، میں سیدہ سارا ہاشمی غزل کراچی ، پاکستان سے تعلق رکھتی ہوں، ایم۔ فل ( اکنامکس ) کی طالبہ ہوں ۔ آپ کی شفقت کے لئے شکر گزار ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خوب غزل ہے آپ کی سیدہ صاحبہ۔

مقطع واقعی بیت الغزل ہے

پیکر ِ گل، شعلہٴ خوشبو سے جلتے ہیں، غزل
ہم سمجھتے ہیں ہواؤں نے جلائے ہیں چراغ

واہ واہ واہ، لاجواب
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب سارا غزل صاحبہ بہت اچھی غزل ہے پڑھ کر لطف آیا۔ خاص طور پر مقطع واقعی لاجواب ہے۔

محفل میں آپ کا خیر مقدم ہے ۔ خوش رہیے ۔
 
Top