سیدہ سارا غزل
معطل
رات بھر تاریکیوں پر مسکرائے ہیں چراغ
صبح ِ دم لیکن اجالوں نے بجھائے ہیں چراغ
قریہء غم میں چراغاں کا ہے منظر خواب سا
دل کی دیواروں پہ یادوں نے سجائے ہیں چراغ
زعفراں کی کھیتیوں پر جس طرح آئے بہار
سینہء پرخوں میں ایسے جگمگائے ہیں چراغ
شہسوار ِ آرزو کی برق رفتاری سے آج
دور تک گرد ِ سفر میں تھرتھرائے ہیں چراغ
چشم ِ حیرت سے انہیں کو دیکھتی ہے کائنات
وقت کے دریا میں جو ہم نے بہائے ہیں چراغ
ہم نے صحرا کے سفر کو جگمگانے کے لئے
چاند اور سورج کی مٹی سے بنائے ہیں چراغ
پیکر ِ گل شعلہء خوشبو سے جلتے ہیں غزل
ہم سمجھتے ہیں ہواؤں نے جلائے ہیں چراغ
سیدہ سارا ہاشمی غزل
صبح ِ دم لیکن اجالوں نے بجھائے ہیں چراغ
قریہء غم میں چراغاں کا ہے منظر خواب سا
دل کی دیواروں پہ یادوں نے سجائے ہیں چراغ
زعفراں کی کھیتیوں پر جس طرح آئے بہار
سینہء پرخوں میں ایسے جگمگائے ہیں چراغ
شہسوار ِ آرزو کی برق رفتاری سے آج
دور تک گرد ِ سفر میں تھرتھرائے ہیں چراغ
چشم ِ حیرت سے انہیں کو دیکھتی ہے کائنات
وقت کے دریا میں جو ہم نے بہائے ہیں چراغ
ہم نے صحرا کے سفر کو جگمگانے کے لئے
چاند اور سورج کی مٹی سے بنائے ہیں چراغ
پیکر ِ گل شعلہء خوشبو سے جلتے ہیں غزل
ہم سمجھتے ہیں ہواؤں نے جلائے ہیں چراغ
سیدہ سارا ہاشمی غزل