چشمہ! نظر کا نہیں، نظریے کا

Posted on June 16, 2014 by Khan Yasir in شمارہ 16 جون 2014, معارف فیچر // 0 Comments



کوئی پڑھا لکھا آدمی یہ نہ جانے کہ مصر کسی ملک کا نام ہے یا چڑیا کا، تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ تعجب کی بات تب ہوگی جب وہ کہے کہ وہ اہرامِ مصر کو نہیں جانتا۔ اہرامِ مصر نئی اور پرانی، دونوں دنیا کے سات عجوبوں میں سے ہے۔ اہرامِ مصر، کی تعمیر آج سائنس کی بے مثال ترقیوں کے باوجود ایک معمہ ہے۔ ویسے تو آج تک مصر میں کل ۸۳۱؍اہرام دریافت کیے جاچکے ہیں لیکن الجیزہ کے اہرام اپنی جسامت، حسن اور رعب و دبدبے کے اعتبار سے ایک نرالی شان رکھتے ہیں۔ اہرامِ مصر کی ایک بڑی سی تصویر دیکھ کر اچانک میرے ذہن میں یہ خیال بلکہ سوال آیا کہ کیا الجیزہ میں واقع وہ تین بڑے اور تین چھوٹے اہرام دنیا کے ہر سیاح کو ایک جیسے نظر آتے ہیں؟ سوال بیوقوفانہ ہے لیکن یہ سوچ کر ہمت بندھی کہ دنیا کی تاریخ میں ہر اس فلسفی کا عقیدت و احترام سے ذکر کیا جاتا ہے جس نے ایسے ہی ’بیوقوفانہ‘ سوالات پر سر کھپایا ہے۔

چنانچہ میں نے اپنے سوال پر ہر پہلو سے غور کرنا شروع کیا۔ غوروفکر کا سلسلہ یہاں سے شروع ہوا کہ جب ایک تختۂ سیاہ، قلم اور کتاب مجھے بھی اور دنیا کے ہر انسان کو تختۂ سیاہ، قلم اور کتاب ہی نظر آتے ہیں تو اہرامِ مصر ہر سیاح کو ایک جیسا کیوں نظر نہ آئے گا؟ سلسلہ جب دراز ہوا تو نظر سے زاویۂ نظر تک جا پہنچا۔ یہاں پہنچ کر میں نے پانچ سیاحوں کا تصور کیا کہ اہرامِ مصر پر پہلی نگاہ پڑتے ہی ان کا تاثر کیا ہوگا۔
پہلے سیاح جس کا میں نے تصور کیا وہ ایک سچا پکا مسلمان تھا۔ میرے کانوں نے اہرامِ مصر پر اس کا یہ تاثر سنا، ’’بڑے بڑے جاہ و حشمت والے بادشاہوں نے مرنے کے بعد عیش و آرام سے رہنے کے لیے یہ شاندار محلات تعمیر کیے تھے۔ کاش وہ ان محلات کے بجائے آخرت کا توشہ جمع کرلیتے!‘‘
دوسرا سیاح جسے میری چشمِ تصور نے اہرامِ مصر کا نظارہ کرتے ہوئے پایا وہ غالی کمیونسٹ تھا۔ اس کا تاثر تھا، ’’مجھے اس خوبصورت سے مخروط کی ہر اینٹ پر بھوکے، کمزور، مظلوم اور بے سہارا مزدوروں کے خون کے دھبے اور ان کے استحصال کی داستانیں نظر آ رہی ہیں۔‘‘
تیسرا سیاح ایک بہت بڑا سرمایہ دار تھا۔ اہرامِ مصر کو دیکھ کر وہ عش عش کر اٹھا، اس نے کہا، ’’وائو، کیا خوبصورت ہے یہ۔ پرانے لوگوں میں بھی کتنی عقل ہوتی تھی۔ کیا آرکیٹکچر ہے! ڈارلنگ ذرا میری فوٹو لینا۔ میرے خیال میں اگر ہانگ کانگ میں اسی شکل کا ایک ہوٹل کھولا جائے تو وہ خوب چلے گا‘‘۔
میرے ذہن نے جس چوتھے سیاح کو آواز دی، وہ ایک مصری قوم پرست تھا۔ اہرامِ مصر پر نظر پڑتے ہی اس کا سینہ ذرا تن گیا، اس نے سر فخر سے اونچا کرکے کہا، ’’یہ ہمارے فرعونوں کا کارنامہ ہے۔ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔‘‘
آخری سیاح اعتقاداً ایک پوسٹ ماڈرنسٹ (Post Modernist) نکلا۔ اس کا تبصرہ مجھے خاصا دلچسپ معلوم ہوا۔ اس نے کہا، ’’ حسن ایک قدرِ اضافی ہے، اس کا کوئی کائناتی پیمانہ نہیں ہے۔ کسی کو یہ بے ڈھنگا مخروط خوبصورت لگے تو لگے، میرے لیے تو اس میں اور کسی جوکر کی ٹوپی میں جسامت کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے‘‘۔
میں چاہتا تو بھانت بھانت کے مزید سیاحوں کا تصور کرسکتا تھا لیکن اتنا کافی تھا۔ اس تمام غوروفکر کے بعد میں اس نتیجے تک پہنچا کہ اہرامِ مصر ہر کسی کو ایک جیسا نظر نہیں آئے گا۔ وہ ہر شخص کو ویسا ہی ’نظر‘ آئے گا جیسا کہ اس کا ’نظریہ‘ ہوگا۔

نظریہ کیا ہے؟
رنگ برنگی جھِلّیاں، شیشے کے ٹکڑوں یا مختلف رنگوں کے چشموں سے بچپن میں ہم سبھی نے کھیلا ہوگا۔ ہرے رنگ کی جھِلّی اوڑھ لی جائے تو ہرا ہی ہرا سجھائی دیتا ہے۔ لال رنگ کا چشمہ پہننے والے کے لیے آسمان سے لے کر زمین تک سب کچھ لالہ زار ہوجاتا ہے۔ بس اسی طرح نظریات کو مختلف رنگوں کے چشموں پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ چشمے آنکھوں پر پہنے جاتے ہیں اور نظریات کی عینک دل اور دماغ پر لگی ہوتی ہے۔ چشمے آسانی سے اتارے اور دوبارہ پہنے جاسکتے ہیں، مگر نظریات کی عینک کو اتاردینا ناممکن ہے، اسے بدلنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ چشمہ پہننے والا، اگر غائب دماغ نہیں ہے، تو جانتا ہے کہ اس نے چشمہ پہنا ہوا ہے، مگر نظریات کی عینک کو ہر انسان جان بوجھ کر نہیں پہنتا، بسا اوقات اسے پتا بھی نہیں چلتا کہ اس نے کوئی عینک بھی لگا رکھی ہے۔ اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب صورتحال تب پیش آتی ہے جب کوئی بھولا بھالا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس نے کسی ایک نظریے(مثلاً اسلام ) کی عینک لگا رکھی ہے، مگر درحقیقت اس کے دماغ پر کسی دوسرے نظریے کا چشمہ (مثلاً لبرلزم، سیکولرازم، کمیونزم یا ان سب کا ملغوبہ ) چڑھا ہوا ہوتا ہے۔ گویا انسان ایک نظریاتی جانور ہے۔ ایک کمپیوٹر میں سافٹ ویئر کی جو حیثیت ہوتی ہے، ٹھیک وہی حیثیت انسانوں میں نظریے کی ہوتی ہے۔

انگریزی لفظ ’آئیڈیالوجی‘ کا استعمال سب سے پہلے فرانسیسی مفکر ڈیسٹیوٹ ڈی ٹریسی نے اٹھارہویں صدی کی آخری دہائی میں بطور ’سائنس آف آئیڈیاز‘ کے نام سے کیا۔ آئیڈیالوجی اس کے لیے اسی طرح ایک علم کا نام تھا جس طرح بائیولوجی، زولوجی یا سوشیولوجی ہوا کرتے ہیں۔ لیکن دھیرے دھیرے آئیڈیالوجی کو آئیڈیاز کے علم کے بجائے مخصوص قسم کے آئیڈیاز کے مجموعے کے طور پر پہچانا جانے لگا اور یوں آئیڈیالوجی نظریے کا ہم معنی ہوگیا۔ اس حساب سے نظریہ یا آئیڈیالوجی دراصل سماجی زندگی میں معنی اور اقدار کی دریافت کا نام ہے۔ ہر سماجی گروہ کی کوئی بنیاد ہوتی ہے (مثلاً رنگ، نسل، زبان، جنس، قومیت، یا مذہب وغیرہ)۔ اسی بنیاد پر اس سماجی گروہ کے اساسی نظریہ کی تعمیر ہوتی ہے۔

انسانی زندگی میں نظریات کی کلیدی اہمیت کے باوجود سماجی علوم میں مختلف نظریات پر بحثیں تو ہوتی ہیں لیکن فی نفسہٖ ’’نظریہ‘‘ کو موضوع بحث کم ہی بنایا جاتا ہے۔ نظریات کے معنی و مفہوم کے تعلق سے بھی جو بحثیں کی جاتی ہیں، وہ اکثر یک رخی اور نامکمل رہ جاتی ہیں۔ نظریات پر جو تنقید کی گئی ہے وہ بھی غلط فہمیوں کی معراج ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ نظریہ فرد کو متعصب بنادیتا ہے لہٰذا ہمیں نظریات سے اوپر اٹھ کر سوچنا، غور و فکر کرنا، تجزیہ کرنا اور نتائج اخذ کرنا چاہیے۔ اس میں پہلی بات صحیح ہے اور دوسری غلط یا کم از کم ناممکن۔ یہ صحیح ہے کہ نظریہ ایک حد تک فرد کو متعصب بنا سکتا ہے لیکن اس کے حل کے طور پر نظریات سے ’اوپر‘ اٹھ جانا ممکن نہیں۔ ہر فرد کا ایک نظریہ ہوتا ہے۔دوسرے الفاظ میں ہر فرد کے اپنے تعصبات ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں کوئی بھی غیر جانبدار نہیں ہے، غیر جانبداری کا ہر دعویٰ جھوٹا ہے۔ پھر تعصب سے بچنے کا طریقہ کیا ہو؟ تعصب کے مضر اثرات سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اپنے اپنے تعصبات کو علی الاعلان تسلیم کرلیا جائے۔ وگرنہ ایک فرد خود کو غیر جانبدار کہے گا مگر اس کے خیالات مارکسزم کا چربہ ہوں گے۔ دوسرا خود کو نظریات سے اوپر کی چیز قرار دے گا مگر اس کی پوری فکر لبرل ہو گی۔ بہت سے ایسے افراد ہوتے ہیں جو کسی ایک نظریے کو فی نفسہٖ قبول نہیں کرتے مگر مختلف نظریات سے مختلف تصورات ادھار لے لیتے ہیں۔ یہ کہنا ایک حوالے سے تو صحیح ہے کہ ایسے افراد کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، لیکن دراصل ایسے افراد کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، یہ حقیقت کی بالکل غلط ترجمانی ہے۔

نظریہ کی تعریف میں بھی لوگوں نے نظریہ کے مثبت یا منفی اثرات پر بحث کی ہے لیکن اس بات پر نہیں کہ نظریہ کہتے کسے ہیں۔ خال خال ہی مارٹن سیلیگر جیسے مفکر نظر آتے ہیں جو نظریہ کی تعریف بیان کرنے میں کامیاب ہیں۔ اپنی کتاب آئیڈیالوجی اینڈ پالیٹکس میں سیلیگر لکھتے ہیں کہ ’’نظریات کچھ ایسے عقائد و اقدار کا نام ہے جو افراد کو عمل پر آمادہ کردیں۔‘‘ مارٹن سیلیگر نے نظریے کی اس مختصر مگر جامع تعریف میں تمام جہتوں کا لحاظ کیا ہے۔ ایک ایسی فکر جس کے ساتھ عمل یا عمل کے لیے کوئی تحریک نہ ہو، فلسفہ تو ہوسکتا ہے نظریہ نہیں۔ ایک ایسا عمل جس کے پیچھے کوئی فکر نہ ہو، ایکٹوزم تو ہوسکتا ہے مگر نظریہ نہیں۔ نظریہ اسی شے کا نام ہوسکتا ہے جو بیک وقت فرد اور سماج کو فکر بھی دے اور عمل کا پیغام بھی۔ ان مبسوط معنوں میں نظریے کو ’’ایمان‘‘ سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔

نظریہ کا کام کیا ہے؟
نظریے کی حیثیت ایک فرد کی زندگی میں وہی ہے جو ایک انجان شہر میں اپنی منزل کی تلاش میں سرگرداں کسی اجنبی مسافر کی جیب میں موجود نقشے کی ہوتی ہے۔ ایک عام قسم کا نقشہ، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، کسی علاقے کا علامتی خاکہ ہوتا ہے جس میں اس علاقے کے اسپتال، پولس تھانہ، ہوٹل، عبادت گاہیں، تاریخی مقامات، اور سڑکوں وغیرہ کا اندراج ہوتا ہے تاکہ ڈھونڈنے والا اپنے اور اپنی منزل کے محلِ وقوع کا اندازہ لگاسکے۔ نقشہ زمین پر موجود ہر ہر عمارت اور ہر ہر گلی کو نہیں دکھاتا، نہ ہی اس میں اس کی گنجائش ہوتی ہے۔ نقشہ کا کام ایک ایک سینٹی میٹر میں میلوں کے فاصلے کو قید کرنے کا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے مسافر ’زمینی‘ حقائق کو نقشے (یا نظریے) سے ’مختلف‘ پاتے ہیں اور جل بھن کر تھیوری اور پریکٹس کی دوئی پر سمع خراشی کرتے ہیں۔ صحیح نقشہ ہو یا صحیح نظریہ، زمینی حقائق اس سے ’زائد‘ تو ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہی ہیں لیکن ’مختلف‘ نہ ہوتے ہیں نہ ہوسکتے ہیں۔ انسانی دنیا میں البتہ ایسے بیوقوف ایک ڈھونڈیے تو ہزار مل جائیں گے جو واشنگٹن یا ماسکو کے نقشے سے دہلی میں منزل کا پتا کھوجتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ واشنگٹن کا بہترین سے بہترین نقشہ بھی دہلی میں منزل کی رہنمائی کا کام انجام نہیں دے سکتا۔ ایسے خوش فہم مسافروں کو جب تلاشِ بسیار کے باوجود دہلی میں واشنگٹن کی سڑکیں، ہوٹل اور عمارتیں نہیں ملتیں تو وہ گھوم پھر کر اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ اچھی طرح ڈھونڈ نہیں پا رہے ہیں، وگرنہ نقشے میں بذات خود کوئی خامی نہیں ہے۔ اگلا مرحلہ تب آتا ہے جب کوئی خوش فہم مسافر بلا کسی دلیل کے جامع مسجد کو واشنگٹن کا اسلامک سینٹر گردان کر آس پاس کے علاقوں کو نقشے کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش میں ناکامی بھی، جو کہ ایسے مسافر کا مقدر ہے، اس کوڑھ مغز کی آنکھوں پر پڑے پردے کو ہٹانے میں ناکام رہتی ہے۔ وہ پھر سپریم کورٹ کو وہائٹ ہائوس قرار دے کر نئے سرے سے اپنی تلاش میں مگن ہوجاتا ہے۔ یوں بھٹکنے بھٹکانے کا یہ سلسلہ تاعمر جاری رہتا ہے۔

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ مختلف نظریات، مختلف مفکرین کے ذہنوں کی اپج ہوتے ہیں۔ ایک مفکر پھر چاہے وہ کتنا ہی علامۃ الدہر کیوں نہ ہو، وہ جن مسائل سے تعرض کرتا ہے اور ان کے جو حل سجھاتا ہے، ان کی افادیت کا ایک محدود سیاق اور دائرہ ہوتا ہے جس کے باہر اس کے نظریے کی کوئی افادیت نہیں ہوتی۔ اکثر نظریات اور فلسفے تو عملی میدان میں قدم ہی نہیں رکھتے بلکہ نرے ’نظریات‘ اور ’فلسفے‘ ہی رہ جاتے ہیں۔ کچھ جو عملی دنیا میں رہنمائی کا بیڑا اٹھاتے ہیں، وہ یا تو اول وہلے میں ہی منہ کی کھا جاتے ہیں یا پھر کمیونزم کی طرح ہر ٹھوکر کے بعد کسی نہ کسی قسم کی پیوندکاری کے ذریعہ ماسکو کے نقشے سے کبھی کلکتہ کبھی ڈھاکا تو کبھی بیجنگ میں راستہ کھوجتے رہتے ہیں۔

مختصر الفاظ میں نظریات کے بنیادی کام دو ہیں۔
ان کا پہلا کام یہ ہے کہ حق، خیر اور حسن کے تعلق سے کچھ مخصوص تصورات کو فروغ دے کر انہیں بنیادی اور عالمگیرباور کرایا جائے اور ان تصورات کو کچھ اس طرح Naturalise کیا جائے کہ وہ معاشرے کا Common sense بن جائیں۔
نظریات کا دوسرا کام مخالف نظریات اور ناپسندیدہ تصورات کو غلط ثابت کرکے ان کی بیخ کنی کرنا یا کم از کم ان کا مذاق اڑاکر نظرانداز کرنا ہے۔ مختصراً یہ کہ نظریہ فرد اور سماج کے لیے حق کا ایک معیار مقرر کرتا ہے۔ پھر دوسرے نظریات پر تنقید کرکے اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

نظریے کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ بڑھنا پھلنا پھولنا چاہتا ہے، چنانچہ وہ عامۃ الناس کو خود کی طرف دعوت دیتا ہے، اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کو جمع ہوکر ایک طے شدہ مقصد کے لیے جدوجہد کی راہ سجھاتا ہے۔ یہ طے شدہ مقصد عموماً موجودہ دنیا سے مختلف مثالی دنیا کا ایک تصور ہوتا ہے جس کے قیام کے لیے موجودہ دنیا کی کمان سنبھال کر اس کو بدلنا ضروری قرار پاتاہے۔ ایک جملے میں کہیں تو اس جدوجہد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نظریۂ موصوف کی بالادستی قائم ہوجائے۔ غلبہ و استیلا کی اس خواہش سے کوئی نظریہ مستثنیٰ نہیں ہے۔ (۔۔۔ جاری ہے!)
http://irak.pk/what-is-ideology/
 
آخری تدوین:

ساجد

محفلین
اب تک کا مضمون پڑھ کر یہ نتیجہ برآمد ہوا
"دوسروں کو نصیحت ، خود میاں فضیحت "
:)
 
Top