ابن انشا چلتے ہو تو چین کو چلئے

سیما علی

لائبریرین
چلتے ہو تو چین کو چلئے، سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے جو سبک طنز میں لپٹا ہوا ہے۔

"پانی ابال کر پیتے ہیں، موبل ائل وہاں گاڑیوں میں ڈالا جاتا ہے۔ اصلی یابناسپتی گھی کہہ کر فروخت نہیں کیا جاتا۔ بھٹے کی اینٹیں بھی مکان بنانے کے کام آتی ہیں۔ ہلدی اور مرچ میں ملا کر ان سے تعمیر معدہ کا کام نہیں لیا جاتا۔ وہاں دودھ بھی گائیوں اور بھینسوں کا ہوتا ہے۔۔ تالابوں یا کمیٹی کے نلکوں سے حاصل نہیں کیا جاتا۔۔ ۔ وہاں آزادی کی سخت کمی ہے ہمارے ایک ساتھی جو اپنے ساتھ پاندان لے کر گئے تھے بار بار فرماتے تھے کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں سڑک پر بھی تھوک نہیں سکتے۔ ایک صاحب شاکی تھے کہ یہاں خریداری کا لطف نہیں، دکاندار بھاؤ تاؤ نہیں کرتے۔ ہوٹل کے بیروں کو بخششیں لینے اور مسافروں کو بخششیں دینے کی آزادی نہیں۔ بسوں اور کاروں کے اختیارات بھی محدود ہیں۔ آپ اپنی بس کو فٹ پاتھ پر نہیں چڑھا سکتے نہ کسی مسافر کے اوپر سے گزار سکتے ہیں۔ "
 

سیما علی

لائبریرین
"ہم جو چین گئے تو سب سے پہلے یہی مسئلہ پیدا ہوا۔ چین میں اخبار ہوتے ہیں لیکن چینی زبان میں اور وہ بھی شام کو نکلتے ہیں۔ صبح نکلتے تو کم از کم ان کی تصویریں دیکھنے کے لئے باتھ روم جایاجا سکتا تھا۔ نتیجہ اخبار نہ دیکھنے کا یہ ہوا کہ ہمارے ادیبوں کے وفد کے اکثر رکن قبض کا شکار ہو گئے۔ ڈاکٹروں نے بہت دوائیں کیں لیکن بے فائدہ۔ آخر ہم نے کہا۔ ان کے لئے اخبار منگوانا شروع کیجئے۔ یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے۔۔ چینی نیوز ایجنسی کا بلٹن انہوں نے بھیجنا شروع کر دیا۔ اس صورت حال کی پوری طرح اصلاح تو نہ ہوئی لیکن بعضوں کا ہاضمہ پہلے سے بہترہو گیا۔ "
ابن انشا کے طنز میں فطری نفاست ہے اور اس کا مزاج غیر جذباتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جملوں کے بین السطور معانی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اس بالواسطہ انداز نے ان کے سفر ناموں کو تابانی اور مسکراہٹ عطا کی ہے اور انہوں نے معاشرتی ناہمواریوں کو طشت از بام کرنے کے لے سفر نامے سے قابل قدر کام لیا ہے۔ ان کے عملی مزاح کی صورت یہ ہے کہ انہوں نے سفر نامے کو کالم میں شامل کر کے صحافت کی ضرورت بنا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top