چلیں باتوں میں بہلائے کبھی آئے

ابن رضا

لائبریرین
گذارش ہے کہ تنقید و اصلاح سے فیض یاب کریں


چلیں باتوں سے بہلائے کبھی آئے
وہ اک وعدہ ہی کر جائے کبھی آئے

مِرا شکوہ ہی سمجھے یا گذارش وہ
خدارا یوں نہ اُلجھائے کبھی آئے

وہ چاہے اشکِ کی صورت ہی کچھ لمحے
مری ا ٓنکھوں میں بھر آئے کبھی آئے

گوارہ ہے ہمیں ہر فیصلہ اُس کا
وہ جوچاہےستم ڈھائے کبھی آئے

وہ بادِ نو بہار بن کر چلے دل میں
کھلا ئے پھول مُرجھائے کبھی آئے

ہمیں بھی چین کے کچھ پل ہی مل جائیں
گئے وقتوں کو دہرائے کبھی آئے

خلش دل کی رضا اب وہ مٹا ہی دے
اذیّت دے نہ تڑپائے کبھی آئے


بحر ہزج مسدس سالم (مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن )
 
آخری تدوین:
ہماری جانب سے دو فوری گزارشات ہیں:

تیسرے شعر میں چند کی دال گرنا جائز نہیں! اسے کچھ سے تبدیل کر کے درست کیا جا سکتا ہے۔
مقطع میں مٹا ڈالنا روزمرہ کے خلاف ہے۔ مٹا ہی دے، درست ہو سکتا ہے۔

تفصیلاً اساتذہ دیکھیں گے۔ اچھی غزل ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، جیسا کہ ذاتی پیغام میں کہا تھا میں نے۔
جو مہدی میاں نے کہا ہے، اس کے علاوہ
یہ شکوہ میرا سمجھے یا گذارش وہ
اس میں الفاظ کی نشست بدل دیں تاکہ رواں ہو جائے۔

بھلے آنسو کی صورت ہی وہ چند لمحے
چند کی جگہ کچھ تو کیا جا سکتا ہے، لیکن محض ’بھلے‘ محاورہ نہیں، ’بھلے ہیُ درست ہوتا ہے۔ الفاظ کو بدلنے کی کوشش کریں۔

جو بھی چاہےستم ڈھائے کبھی آئے
جُبی‘ جو تقطیع ہوتا ہے، اچھا نہیں لگتا
وہ جو چاہے ستم۔۔۔۔ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔

خزاں کی رُت نے ویرانی مچائی ہے
کھلا دے پھول مُرجھائے کبھی آئے
۔۔ویرانی نہیں شور مچایاجاتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے مصرع میں مرجھاے‘ کا محل سمجھ میں نہیں آیا
 

ابن رضا

لائبریرین
ہماری جانب سے دو فوری گزارشات ہیں:

تیسرے شعر میں چند کی دال گرنا جائز نہیں! اسے کچھ سے تبدیل کر کے درست کیا جا سکتا ہے۔
مقطع میں مٹا ڈالنا روزمرہ کے خلاف ہے۔ مٹا ہی دے، درست ہو سکتا ہے۔

تفصیلاً اساتذہ دیکھیں گے۔ اچھی غزل ہے۔
بہت شکریہ آپ کی دونوں تجاویز نہایت موزوں معلوم ہوتی ہیں ۔ اور ایسا ہی کیا گیا ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت شکریہ آپ کی دونوں تجاویز نہایت موزوں معلوم ہوتی ہیں ۔ اور ایسا ہی کیا گیا ہے
جی محترم الف عین صاحب بہت نوازش آپ نے وقت دیا ۔

آپ کی ہدایات کو مدِنظر رکھ کے کچھ تبدیلیاں کی ہیں از راہِ کرم مشاہدہ فرمائیں

چلیں باتوں میں بہلائے کبھی آئے
کو ئی وعدہ ہی کر جائے کبھی آئے
مِرا شکوہ ہی سمجھے یا گذارش وہ
خدارا یوں نہ اُلجھائے کبھی آئے
وہ چاہے آنسو کی صورت ہی کچھ لمحے
مری ا ٓنکھوں میں بھر آئے کبھی آئے
گوارہ ہے ہمیں ہر فیصلہ اُس کا
وہ جوچاہےستم ڈھائے کبھی آئے
وہ بادِ نو بہار بن کر چلے دل میں
کھلا ئے پھول مُرجھائے کبھی آئے
ہمیں بھی چین کے کچھ پل ہی مل جائیں
گئے وقتوں کو دہرائے کبھی آئے
خلش دل کی رضا اب وہ مٹا ہی دے
اذیّت دے نہ تڑپائے کبھی آئے
 
آخری تدوین:
Top