با ادب
محفلین
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے( حصہ ہفتم )
بے بسی سی بے بسی تھی ۔ آج بون میرو نہیں ہو سکتا اور اب کل پھر سے سی پی کا خراج وصول ہوگا ۔ باہر برستی بارش تھم چکی تھی لیکن دل میں لگی جھڑی کئی ہفتوں سے تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی ۔ اس نے ذوالأید کو خوشی کی نوید سنائی ۔ ہم نانو کے گھر جا رہے ہیں ۔
اسکی والدہ کی غصے سے بھری آنکھوں کو آج کے دن کے لئیے نظر انداز کر دینا ہی بہتر تھا ۔
" ہم نانو کے گھر نہیں جا سکتے شام کو اسے خون کی بوتل لگانی ہوتی ہے ۔ اسے ہسپتال سے باہر نہیں رکھا جا سکتا اس کی قوت مدافعت بالکل نہیں ہے اس پہ بیماری کے جراثیم جلد حملہ آور ہو سکتے ہیں "
لیکن ہم پھر بھی نانو کے گھر جا رہے ہیں ۔
تم سمجھتی کیوں نہیں ؟؟؟
اسلیئے کی میں چاہتی ہوں کہ آج کے دن تم سمجھ جاؤ یہ پچھلے دو ہفتے سے ایک کمرے میں بند ہے پچھلے دو ہفتے سے اس نے رزق کا ایک دانہ نہیں چکھا یہ جنھیں تم مسیحا مانتی ہو انھیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ مسلسل کچھ نا کھانے سے اسکی رہی سہی قوت مدافعت بھی ختم ہو گئی ہے ۔ کوئی ایک فوڈ سپلیمنٹ تک سجیسٹ کرنے سے قاصر ہیں تمھارے یہ ناخدا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ذولأید نانو کے گھر ضرور جائے گا اب کوئی اسے روک نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔
جانتی تھی ایک دفعہ بہن جس بات کا مصمم ارادہ کر لے وہ کر کے دم لیتی ہے ۔
اسلیئے خاموشی بہتر جانی گئی ۔ وہ خود بھی ہسپتال کی دنیا سے ڈر چکی تھی اسے خود بھی مزید سانس لینے کے لئیے ہمت مجتمع کرنی تھی ۔
اس دن ذولأید دو ہفتوں بعد مسکرایا ۔ اس دن وہ انتہائی نحیف و نزار ہونے کے باوجود بستر سے اٹھا اور کئی گھنٹے اپنی نئی کھلونا گاڑیوں سے کھیلتا رہا ۔
خالہ میں ہسپتال نہیں جاؤنگا میں یہیں رہونگا ۔۔۔ خالہ کے اندر لگی جھڑی سیلاب میں بدلنے لگی ۔۔۔ سب بہہ جانے کو بے تاب ۔۔ کاش وہ اس دن اسکی بات مان لیتی لیکن ہم بچوں کو ہمیشہ بچہ ہی سمجھتے ہیں ہم ان کی رائے مشورے اور انکی خواہشات کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ان سے زیادہ سمجھدار ہیں زیادہ سیانے ہیں ہم انکے لیئے جو سوچتے ہیں بہتر سوچتے ہیں ۔ لیکن فیصلوں اور مشوروں کا عمر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کل عید ہے ۔ "
وہ جو کتاب پڑھنے میں منہمک تھی ذرا سا چونکی اور دوبارہ کتاب پڑھنے میں مشغول ہو گئی ۔
پنکھا دھیرے سے ہلتا تھا کہ ذولأید کو کمزوری کے سبب ٹھنڈ لگتی تھی ۔ اس نے اپنے پیروں کی طرف لیٹے اسے دیکھا وہ کارٹون دیکھنے میں مگن تھا ۔۔۔ اسکے چہرے پہ موجود بیزاری اور تھکن عروج پہ تھی وہ بے تحاشا کمزور ہو چکا تھا ۔ خوبصورت آنکھوں کی چمک ماند تھی ناک میں فنگس لگ چکا تھا جو انتہائی خطرناک صورت حال اختیار کر چکا تھا ۔ ناک اور چہرہ سوجا ہواتھا ۔ اسکی شکستگی تکلیف دیکھ کر اسکی آنکھ سے آنسو گر کر سفید چادر میں گم ہو گیا ۔
اسے لگا اسکا دم گھٹ جائے گا یہاں سے نکلنے میں بہتری تھی ۔
وہ اٹھی ۔۔کتاب پڑھتے وجود کو ہلایا اور اسکی ناگواری کی پروا کئیے بغیر اطلاع دی
کل عید ہے اور میں عید کی شاپنگ کے لیئے جا رہی ہوں اور جتنی دیر میں واپس آؤں تم کمرے کی صفائی کروا چکی ہو ۔ ہسپتال میں آج تفصیلی صفائی کا دن منایا جا رہا تھا ۔
جواب کا انتظار کئیے بغیر وہ باہر نکل آئی تھی ۔
اور پورے دو گھنٹے کی شاپنگ کر کے جب لوٹی تو تو ایک کمرے کی ڈیکوریشن کا ہر سامان لے کر لوٹی تھی ۔
جھاڑو ، موپ ، بیڈ شیٹ ، فٹ میٹ ، واش روم کلینر ، ائیر فریشنر ، چائے کے مگ ، دیگچیاں ، روم ڈیکوریشن کا سامان ، مختلف اقسام کی باسکٹ، سب کے عید کے کپڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جانے کیا الم غلم ۔۔۔
کتاب پڑھنے والی خاتون نے اپنی جگہ سے ہلنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی تھی ۔ ذولأید سو کے اٹھ چکا تھا ۔۔ اور کمرہ صفائی سے محروم تھا ۔۔۔
اس سے پہلے کے خالہ کا پارہ چڑھتا اماں حضور نے کتاب بند کی ذولأید کو وہیل چئیر میں ڈال کے گویا ہوئیں ۔
ذولأید بیٹاکومل آنٹی کے گھر چلتے ہیں ۔
اور اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ ذولأید کو کومل آنٹی سے ملنے ان کے گھر جانے کی خوشی دونوں جہانوں سے بڑھ کر تھی ۔
کومل آنٹی بہت پیاری اور شفیق آنٹی تھیں جن کا گھر پمز کے اندر ہی موجود تھا ۔ اور جو ذولأید کے ان لمحات کی ساتھی تھیں جب وہ ہسپتال سے مکمل اکتا چکا تھا اور ہمہ وقت گھر کے لیے ہمکتا رہتا تب کومل آنٹی کسی مہربان فرشتے کی طرح آکے اسے گھر لے جاتیں جہاں وہ ٹی وی دیکھتا کومل آنٹی سے کھیلتا اور ڈھیر ساری خوشی لے کر لوٹ آتا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضا میں کینوؤں کی مہک رچی ہوئی ہے ۔ جدھر نظر اٹھا کے دیکھیے کینو کے باغات کا سلسلہ دور تک پھیلتا نظر آتا ہے ۔ ان ہی باغات کے بیچ سے ایک راستہ گزرتا ہوا بیلا کے پانیوں تک جاتا ہے ۔ اس راستے پہ وہ سب ہنستے کھیلتے شرارتیں کرتے جاتے ہیں ۔
خالہ اور ماموں کی چیخ پکار پورے راستے جاری و ساری ہے ۔۔ پھول مت توڑو ۔۔۔ دیکھ کے چلو ۔۔ پانی کے پاس نہیں جانا ۔۔
ذولأید چھوٹے بھائی کو تنگ مت کرو ۔۔۔۔۔
ہدایات مسلسل اور مستقل طور پہ جاری رہتی ہیں ۔۔۔ یہ ہدایات بچوں کے ساتھ ساتھ انکی والدہ کے لیئے بھی ہیں کہ وہ خود بھی ایک ایسی بچی ہیں جن کا خیال بہن بھائیوں کے ذمے ہے ۔ اور بچے خالہ کے سوا کسی کوخاطر میں نہیں لاتے ۔
ہنسی خوشی امنگیں ۔۔۔۔۔کیا نہیں تھا اس چھوٹے سے قافلے کے پاس ۔۔۔۔۔۔۔۔
خالہ مجھے تیرنا آتا ہے ۔۔۔۔۔
نہیں ذوالأید آپ ابھی چھوٹے ہیں بیٹا ۔۔۔۔
خالہ میں بالکل کنارے پہ تیرونگا ۔۔۔۔۔
نہیں بیٹا آپ کو کچھ ہو گیا تو پھر مما اور خالہ کیا کریں گی ۔۔۔۔
مما چھوٹے بھائی سے کھیل لیں گی نا ۔۔۔۔۔
لیکن خالہ کا بیٹا تو صرف ذوالأید ہے نا۔۔۔۔۔
اور وہ ہمیشہ کی طرح جلد مان جاتا ہے ۔ وہ خالہ کا ایسا بیٹا ہے جو خالہ کی ہر بات کوآنکھ بند کر کے تسلیم کرتا ہے ۔
خالہ پھر میں پتنگ اڑاؤنگا ۔۔۔ جب میں گھر میں پتنگ اڑاتا ہوں تو وہ بہت اونچی نہیں اڑتی ۔۔ نانو کہتی ہیں دریا کے پاس ہوا بہت تیز ہوتی ہے وہاں پتنگ خوب اڑتی ہے ۔
اچھا ہم دوبارہ آئیں گے تو پتنگ لے کے آئیں گے ۔۔۔
پکا وعدہ خالہ ۔۔۔۔
پکا وعدہ ۔۔۔۔
وہ خوشی سے دوڑتا ہے ۔۔۔ اونچے نیچے راستے پہ ڈولتا ذوالأید دوڑتا جاتا ہے اور مسکرائے جاتا ہے ۔۔۔۔۔
اور آج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی اسی اونچی نیچی پگڈنڈی پہ رواں دواں ہے ۔۔۔ رکتی ڈولتی اور چلتی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گاڑی سے باہر جھانکیں تو گہری سیاہ اماوس کی رات ہے ۔۔۔ بیلا کے پانی غم میں ڈوبے بین کرتے ہیں ۔ ذوالأید کا بخار اتر چکا ہے ۔۔۔۔ اب اسکا وجود گرم نہیں ۔۔ اب اسکی والدہ بار بار اسکا بخار بھی چیک نہیں کرتیں ۔
پانی کی آواز سناٹے میں کانوں کے پردے پھاڑتی ہے ۔ نمکین پانی کا تناسب فضا میں بڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔ گاڑی کے اندر بیٹھے وہ تینوں سر ٹکائے حالت سکون میں تھے ۔۔۔ ایسا سکون جو پچھلے چالیس دن سے نا پید تھا ۔۔۔۔ وہ تین جو ایک مثلث کے ٹکڑے تھے آج پورے تھے مکمل تھے ۔۔۔ تینوں بہن بھائی ۔۔۔ جو ہر وقت ایک دوسرے کا سایہ بنے رہتے
بس فرق صرف اتنا تھا کہ ان دونوں بہنوں کا چھوٹا بھائی آج بہت بڑا تھا ۔۔۔۔ وہ دونوں ساکت وصامت اسکے گلے سے لگی پانی کی آوازوں کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھیں ۔
بھائی گاڑی روکو بیلا کے پانی ہمیں بلاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
نہیں یہ رات کا وقت ہے ۔۔۔ گاڑی کیسے روک لیں ۔
بھائی پلیز گاڑی روکو ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہم سے ملنا چاہتے ہیں ۔۔۔ تم سمجھتے کیوں نہیں ۔۔۔ اگر ہم ان سے نہیں ملے تو بے وفائی کے مرتکب ہونگے ۔۔۔۔بھائی گاڑی روک دو ۔۔۔۔ پانی کی لہریں بے حد اداس ہیں ۔۔۔۔۔ مجھے انھیں تسلی دینی ہے ان سے ملنا ہے ۔۔۔۔۔
گاڑی روک دی جاتی ہے ۔
وہ بیلا سے ملنے کو بے تاب ہیں
جاری ہے
سمیرا امام
بے بسی سی بے بسی تھی ۔ آج بون میرو نہیں ہو سکتا اور اب کل پھر سے سی پی کا خراج وصول ہوگا ۔ باہر برستی بارش تھم چکی تھی لیکن دل میں لگی جھڑی کئی ہفتوں سے تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی ۔ اس نے ذوالأید کو خوشی کی نوید سنائی ۔ ہم نانو کے گھر جا رہے ہیں ۔
اسکی والدہ کی غصے سے بھری آنکھوں کو آج کے دن کے لئیے نظر انداز کر دینا ہی بہتر تھا ۔
" ہم نانو کے گھر نہیں جا سکتے شام کو اسے خون کی بوتل لگانی ہوتی ہے ۔ اسے ہسپتال سے باہر نہیں رکھا جا سکتا اس کی قوت مدافعت بالکل نہیں ہے اس پہ بیماری کے جراثیم جلد حملہ آور ہو سکتے ہیں "
لیکن ہم پھر بھی نانو کے گھر جا رہے ہیں ۔
تم سمجھتی کیوں نہیں ؟؟؟
اسلیئے کی میں چاہتی ہوں کہ آج کے دن تم سمجھ جاؤ یہ پچھلے دو ہفتے سے ایک کمرے میں بند ہے پچھلے دو ہفتے سے اس نے رزق کا ایک دانہ نہیں چکھا یہ جنھیں تم مسیحا مانتی ہو انھیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ مسلسل کچھ نا کھانے سے اسکی رہی سہی قوت مدافعت بھی ختم ہو گئی ہے ۔ کوئی ایک فوڈ سپلیمنٹ تک سجیسٹ کرنے سے قاصر ہیں تمھارے یہ ناخدا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ذولأید نانو کے گھر ضرور جائے گا اب کوئی اسے روک نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔
جانتی تھی ایک دفعہ بہن جس بات کا مصمم ارادہ کر لے وہ کر کے دم لیتی ہے ۔
اسلیئے خاموشی بہتر جانی گئی ۔ وہ خود بھی ہسپتال کی دنیا سے ڈر چکی تھی اسے خود بھی مزید سانس لینے کے لئیے ہمت مجتمع کرنی تھی ۔
اس دن ذولأید دو ہفتوں بعد مسکرایا ۔ اس دن وہ انتہائی نحیف و نزار ہونے کے باوجود بستر سے اٹھا اور کئی گھنٹے اپنی نئی کھلونا گاڑیوں سے کھیلتا رہا ۔
خالہ میں ہسپتال نہیں جاؤنگا میں یہیں رہونگا ۔۔۔ خالہ کے اندر لگی جھڑی سیلاب میں بدلنے لگی ۔۔۔ سب بہہ جانے کو بے تاب ۔۔ کاش وہ اس دن اسکی بات مان لیتی لیکن ہم بچوں کو ہمیشہ بچہ ہی سمجھتے ہیں ہم ان کی رائے مشورے اور انکی خواہشات کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ان سے زیادہ سمجھدار ہیں زیادہ سیانے ہیں ہم انکے لیئے جو سوچتے ہیں بہتر سوچتے ہیں ۔ لیکن فیصلوں اور مشوروں کا عمر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کل عید ہے ۔ "
وہ جو کتاب پڑھنے میں منہمک تھی ذرا سا چونکی اور دوبارہ کتاب پڑھنے میں مشغول ہو گئی ۔
پنکھا دھیرے سے ہلتا تھا کہ ذولأید کو کمزوری کے سبب ٹھنڈ لگتی تھی ۔ اس نے اپنے پیروں کی طرف لیٹے اسے دیکھا وہ کارٹون دیکھنے میں مگن تھا ۔۔۔ اسکے چہرے پہ موجود بیزاری اور تھکن عروج پہ تھی وہ بے تحاشا کمزور ہو چکا تھا ۔ خوبصورت آنکھوں کی چمک ماند تھی ناک میں فنگس لگ چکا تھا جو انتہائی خطرناک صورت حال اختیار کر چکا تھا ۔ ناک اور چہرہ سوجا ہواتھا ۔ اسکی شکستگی تکلیف دیکھ کر اسکی آنکھ سے آنسو گر کر سفید چادر میں گم ہو گیا ۔
اسے لگا اسکا دم گھٹ جائے گا یہاں سے نکلنے میں بہتری تھی ۔
وہ اٹھی ۔۔کتاب پڑھتے وجود کو ہلایا اور اسکی ناگواری کی پروا کئیے بغیر اطلاع دی
کل عید ہے اور میں عید کی شاپنگ کے لیئے جا رہی ہوں اور جتنی دیر میں واپس آؤں تم کمرے کی صفائی کروا چکی ہو ۔ ہسپتال میں آج تفصیلی صفائی کا دن منایا جا رہا تھا ۔
جواب کا انتظار کئیے بغیر وہ باہر نکل آئی تھی ۔
اور پورے دو گھنٹے کی شاپنگ کر کے جب لوٹی تو تو ایک کمرے کی ڈیکوریشن کا ہر سامان لے کر لوٹی تھی ۔
جھاڑو ، موپ ، بیڈ شیٹ ، فٹ میٹ ، واش روم کلینر ، ائیر فریشنر ، چائے کے مگ ، دیگچیاں ، روم ڈیکوریشن کا سامان ، مختلف اقسام کی باسکٹ، سب کے عید کے کپڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جانے کیا الم غلم ۔۔۔
کتاب پڑھنے والی خاتون نے اپنی جگہ سے ہلنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی تھی ۔ ذولأید سو کے اٹھ چکا تھا ۔۔ اور کمرہ صفائی سے محروم تھا ۔۔۔
اس سے پہلے کے خالہ کا پارہ چڑھتا اماں حضور نے کتاب بند کی ذولأید کو وہیل چئیر میں ڈال کے گویا ہوئیں ۔
ذولأید بیٹاکومل آنٹی کے گھر چلتے ہیں ۔
اور اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ ذولأید کو کومل آنٹی سے ملنے ان کے گھر جانے کی خوشی دونوں جہانوں سے بڑھ کر تھی ۔
کومل آنٹی بہت پیاری اور شفیق آنٹی تھیں جن کا گھر پمز کے اندر ہی موجود تھا ۔ اور جو ذولأید کے ان لمحات کی ساتھی تھیں جب وہ ہسپتال سے مکمل اکتا چکا تھا اور ہمہ وقت گھر کے لیے ہمکتا رہتا تب کومل آنٹی کسی مہربان فرشتے کی طرح آکے اسے گھر لے جاتیں جہاں وہ ٹی وی دیکھتا کومل آنٹی سے کھیلتا اور ڈھیر ساری خوشی لے کر لوٹ آتا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضا میں کینوؤں کی مہک رچی ہوئی ہے ۔ جدھر نظر اٹھا کے دیکھیے کینو کے باغات کا سلسلہ دور تک پھیلتا نظر آتا ہے ۔ ان ہی باغات کے بیچ سے ایک راستہ گزرتا ہوا بیلا کے پانیوں تک جاتا ہے ۔ اس راستے پہ وہ سب ہنستے کھیلتے شرارتیں کرتے جاتے ہیں ۔
خالہ اور ماموں کی چیخ پکار پورے راستے جاری و ساری ہے ۔۔ پھول مت توڑو ۔۔۔ دیکھ کے چلو ۔۔ پانی کے پاس نہیں جانا ۔۔
ذولأید چھوٹے بھائی کو تنگ مت کرو ۔۔۔۔۔
ہدایات مسلسل اور مستقل طور پہ جاری رہتی ہیں ۔۔۔ یہ ہدایات بچوں کے ساتھ ساتھ انکی والدہ کے لیئے بھی ہیں کہ وہ خود بھی ایک ایسی بچی ہیں جن کا خیال بہن بھائیوں کے ذمے ہے ۔ اور بچے خالہ کے سوا کسی کوخاطر میں نہیں لاتے ۔
ہنسی خوشی امنگیں ۔۔۔۔۔کیا نہیں تھا اس چھوٹے سے قافلے کے پاس ۔۔۔۔۔۔۔۔
خالہ مجھے تیرنا آتا ہے ۔۔۔۔۔
نہیں ذوالأید آپ ابھی چھوٹے ہیں بیٹا ۔۔۔۔
خالہ میں بالکل کنارے پہ تیرونگا ۔۔۔۔۔
نہیں بیٹا آپ کو کچھ ہو گیا تو پھر مما اور خالہ کیا کریں گی ۔۔۔۔
مما چھوٹے بھائی سے کھیل لیں گی نا ۔۔۔۔۔
لیکن خالہ کا بیٹا تو صرف ذوالأید ہے نا۔۔۔۔۔
اور وہ ہمیشہ کی طرح جلد مان جاتا ہے ۔ وہ خالہ کا ایسا بیٹا ہے جو خالہ کی ہر بات کوآنکھ بند کر کے تسلیم کرتا ہے ۔
خالہ پھر میں پتنگ اڑاؤنگا ۔۔۔ جب میں گھر میں پتنگ اڑاتا ہوں تو وہ بہت اونچی نہیں اڑتی ۔۔ نانو کہتی ہیں دریا کے پاس ہوا بہت تیز ہوتی ہے وہاں پتنگ خوب اڑتی ہے ۔
اچھا ہم دوبارہ آئیں گے تو پتنگ لے کے آئیں گے ۔۔۔
پکا وعدہ خالہ ۔۔۔۔
پکا وعدہ ۔۔۔۔
وہ خوشی سے دوڑتا ہے ۔۔۔ اونچے نیچے راستے پہ ڈولتا ذوالأید دوڑتا جاتا ہے اور مسکرائے جاتا ہے ۔۔۔۔۔
اور آج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی اسی اونچی نیچی پگڈنڈی پہ رواں دواں ہے ۔۔۔ رکتی ڈولتی اور چلتی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گاڑی سے باہر جھانکیں تو گہری سیاہ اماوس کی رات ہے ۔۔۔ بیلا کے پانی غم میں ڈوبے بین کرتے ہیں ۔ ذوالأید کا بخار اتر چکا ہے ۔۔۔۔ اب اسکا وجود گرم نہیں ۔۔ اب اسکی والدہ بار بار اسکا بخار بھی چیک نہیں کرتیں ۔
پانی کی آواز سناٹے میں کانوں کے پردے پھاڑتی ہے ۔ نمکین پانی کا تناسب فضا میں بڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔ گاڑی کے اندر بیٹھے وہ تینوں سر ٹکائے حالت سکون میں تھے ۔۔۔ ایسا سکون جو پچھلے چالیس دن سے نا پید تھا ۔۔۔۔ وہ تین جو ایک مثلث کے ٹکڑے تھے آج پورے تھے مکمل تھے ۔۔۔ تینوں بہن بھائی ۔۔۔ جو ہر وقت ایک دوسرے کا سایہ بنے رہتے
بس فرق صرف اتنا تھا کہ ان دونوں بہنوں کا چھوٹا بھائی آج بہت بڑا تھا ۔۔۔۔ وہ دونوں ساکت وصامت اسکے گلے سے لگی پانی کی آوازوں کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھیں ۔
بھائی گاڑی روکو بیلا کے پانی ہمیں بلاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
نہیں یہ رات کا وقت ہے ۔۔۔ گاڑی کیسے روک لیں ۔
بھائی پلیز گاڑی روکو ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہم سے ملنا چاہتے ہیں ۔۔۔ تم سمجھتے کیوں نہیں ۔۔۔ اگر ہم ان سے نہیں ملے تو بے وفائی کے مرتکب ہونگے ۔۔۔۔بھائی گاڑی روک دو ۔۔۔۔ پانی کی لہریں بے حد اداس ہیں ۔۔۔۔۔ مجھے انھیں تسلی دینی ہے ان سے ملنا ہے ۔۔۔۔۔
گاڑی روک دی جاتی ہے ۔
وہ بیلا سے ملنے کو بے تاب ہیں
جاری ہے
سمیرا امام