چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے(چوتھا حصہ)

با ادب

محفلین
پرانے وقتوں کی بات ہے ایک باپ بیٹا اپنے گدھے کو ہانکے سفر پہ روانہ تھے. لوگوں نے دیکھا باپ اور بیٹا پیدل گدھے کو ہانکتے ہوئے جا رہے ہیں تو کہا کیسے کم عقل ہیں دونوں میں سے ایک شخص کو گدھے پہ سوار ہوجانا چاہئیے. لوگوں کی یہ بات سن کر باپ گدھے پہ سوار ہو گیا اور بیٹا گدھے کو ہانکنے لگا.
تھوڑا دور گئے ہوں گے کہ لوگوں کا پھر سے ارشاد ہوتا ہے کیسا ظالم باپ ہے خود مزے سے گدھے پہ سوار ہے بیٹے کی تکلیف اور تھکن کا احساس ہی نہیں. باپ یہ سن کر گدھے سے اترتا ہے اور بیٹے کو گدھے پہ سوار کر کے عازم سفر ہوتا ہے. کچھ ہی دور گئے ہوں گے کہ لوگوں کا فتوی پھر سے جاری ہوا ارے کیسا نافرمان بیٹا ہے خود گدھے پہ سوار ہے بعڑھے باپ کا کوئی احساس ہی نہیں.
بالآخر تنگ آ کر باپ اور بیٹا دونوں گدھے پہ سوار ہو گئے کہ اب بچت ہو جائے گی. لیکن لوگوں کی عظمت کو سلام ہے فرمانے لگے ایسے ظالم لوگ کہیں نہیں دیکھے بے زبان جانور سے کیسی مشقت لیتے ہیں. دونوں نے ہی اپنا اپنا بوجھ اد رکھا ہے. اب کہ یہ باپ بیٹا گدھے سے اترتے ہیں دونوں مل کر گدھے کو کندھوں پہ اٹھا لیتے ہیں.
لوگوں نے اب بھی نہ بخشا ارے ان بے وقوفوں کو دیکھو گدھے کو اٹھا رکھا ہے.
لوگ انسان کو کسی حال میں نہیں بخشتے لوگوں نے اسے بھی نہیں بخشا.
ارے کیسی تعلیم یافتہ ہے اسے تو گھاس کاٹنی بھی نہیں آتی. کوئی پوچھے بیبیوں کس کالج یونیورسٹی میں گھاس کاٹنے کی مشق کروائی جاتی ہے؟
پہلی بیٹی کی پیدائش ہوئی. ارے پہلوٹھی کا لڑکا ہو تو باپ کا سہارا بنتا ہے.
اللہ اللہ تیسری بیٹی. . .
ارے اگر پڑھی لکھی ڈاکٹر ہے تو میاں کی نفسیات کا علاج کرے.
پڑھ لکھ کے ظلم و جبر کیوں سہتی ہے بولا کرے.
تین بہنوں کے بعد لڑکا ہوا. ارے میاں کا رویہ نازیبا ہے بے چاری کے. کام دھندے سے بھی فارغ ہے. ( فراغت ہی ہر برائی کی جڑ ہے)
ارے بیوی بچے لے کے میکے جا بیٹھی. بیٹا راس نہ آیا سبز قدم تھا آتے ہی ماں کا گھر اجاڑ دیا. . . . .

گھر کسی چار دیواری یا چھت کا نام.نہیں. یہ اس تحفظ کا نام ہے جو اس چھت اور چار دیواری کے اندر ملتا ہے. یہ اس محبت اور اس احساس کا نام ہے جہاں آپ تمام فکروں کو بھلا دیتے ہیں. جن چار دیواریوں میں انسان کو اپنے غیر محفوظ ہونے کا احساس چین نہ لینے دیتا ہو وہ گھر کہلانے کے لائق نہیں رہتیں.
گھر بنانے کے لئیے قربانیاں درکار ہوتی ہیں لیکن کس قربانی کے لئیے قربان ہونا ہے اور کس قربانی کو قربان کرنا ہے اس کے لئیے حکمت کی اشد ضرورت ہے. اور حکمت کا میسر آنا کارِ آساں نہیں.
مشرقی معاشرے میں عام تصور پایا جاتا ہے کہ گھر کو بنانے کے لئیے عورت کو قربان ہونا پڑتا ہے. اور اس قربانی کی تعریف عُرفِ عام میں یوں کی جاتی ہے کہ چپ چاپ اپنی تمام آوازوں کا گلہ گھونٹ کر ہر ظلم کو خاموشی سے برداشت کیا جائے. اور برِ صغیر کی پچھتر فیصد خواتین کا یہ خاصہ رہا ہے.
اور بھلا ان نیک بیبیوں کا یہ ہو کہ یہ اپنے تمام حقوق سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہوتی ہیں.
ظلم کو خاموشی سے سہنے کی تربیت ان پالنے میں دی جاتی ہے. ظلم کے خلاف آواز اٹھانا تو بڑی بات ہے اعتراض تک کی اجازت نہیں دی جاتی.
اور اگر کبھی یہ آواز اٹھ جائے تو معاشرے کی تمام توپوں کا رخ اسی نیک بی بی کی طرف رہتا ہےجس نے یہ جرأت رندانہ کی ہوتی ہے. ان حالات میں یا تو خاتون خانہ اتنی گولہ باری سے گھبرا کر اس آواز کو دوبارہ حلق میں دبا لیتی ہے یا پھر کسی اور انتہا پہ پہنچ کہ تمام انتہاؤں سے خود کو آزاد کر لیتی ہے.
ظلم مٹانا ضروری ہے بہ نسبت ظالم کو مٹانے کے " یہ نکتہ سمجھنا مشکل اور کارِ گراں ہے.
جب انسان روز اول سے خاموشی کا بت بن کر ہر وار کو سہنے کا عادی بن جاتا ہے تو وار کرنے والا بھی بھول جاتا ہے کہ مد مخالف حقیقتاً پتھر کا بت نییں جیتا جاگتا سوچتا سمجھتا انسان ہے.
...............................................

اِنَّ مَعَ العسر یسرا.
ہر مشکل کے بعد آسانی نہیں ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے.
اسے ہر روز سفید خون کی چار بوتلیں درکار تھیں. ڈاکٹز مایوس! بی نیگیٹو نایاب ہے مشکل سے ملتا ہے. بچے کو بہت سا خون درکار ہے آپ تمام بلڈ بینک سے رابطہ کریں.
ہر صبح خون کی تلاش جاری ہوتی اور ہر شام اللہ اپنے بندوں کو مایوس ہونے سے بچا لیتا ہے. جب تک خون کی ضرورت رہی خون ملتا رہا. یہ اللہ کی مشکل کے ساتھ دی ہوئی آسانی تھی.

وہ خون جو بڑی مشکل سے ذوالأید کے جسم کا حصہ بنتا ہے اس خون کا ہر روش خراج بلڈ سی پی کی شکل میں دینا پڑتا ہے. ڈاکٹرز کو روز یہ جاننا ہے کہ خون لگنے سے پلیٹ لیٹس بڑھتے ہیں یا نہیں. لیکن پلیٹ لیٹس بڑھنے سے انکاری ہیں.
. . . . . . . . ............................
کیا آپ ہماری دعاؤں پہ یقین رکھتی ہیں؟ ؟
آپ کی دعا میں کھوٹ ہے کیا؟ ؟؟
ہماری دعائیں کھوٹ کے ساتھ مانگی نہیں جا سکتیں. . ہم اخلاص سے ہاتھ پھیلاتے ہیں.
کس کے آگے؟ ؟؟؟
یسوع مسیح کے رب کے آگے. .
وہی تو سب کا رب ہے. .
آپ اسے مانتی ہیں. . . ؟؟؟
ہم سب اسے مانتے ہیں. ہم.سب اس سے مانگتے ہیں. .

وہ کون ہے؟ ؟
وہ اللہ ہے.
سسٹر انجلین محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتی ہے. ہم اسے گاڈ کہتے ہیں. میں گاڈ سے ذوالأید کے لئیے پرے (دعا) کروں؟ ؟ آپ اجازت دیتی ہیں؟ ؟
۱۰ اگست! ڈھلتی رات کا تیسرا پہر
ہسپتال کے کمرہ نمبر پانچ میں تمام روشنیاں گُل ہیں. کاریڈور میں لگے بلب کی مدھم روشنی لکیر کی صورت کمرے کے اندر در آتی ہے.
انجلین جو اپنے غصے کے لئیے مشہور ہے اس روتی بلکتی خالہ سے پرے (دعا ) کی اجازت لیتی ہے.
انجلین! تم میرے بچے کے لئیے دعا مانگو گی؟
ہاں میں ضرور مانگوں گی.
وعدہ؟
وہ آگے بڑھ کر اسے گلے لگاتی ہے
انجلین تم مسیح کے رب سے مسیحائی ضرور مانگنا. . . میں تمھیں اجازت دیتی ہوں.
. . ...............................................
۱۱ اگست. . . چھاجوں چھاج بارش برستی ہے. بڑے عرصے سے کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا. مارگلہ کی پہاڑیاں سر مستی کے عالم میں بارش میں بھیگتی ہیں. اسلام آباد کے من چلے سڑکوں پہ نکل آئے ہیں.
گھروں سے ساون کے پکوان کی سوندھی خوشبوئیں اٹھتی ہیں اور ماحول پہ چھا جاتی ہیں.
ان تمام رنگینیوں سے پرے ہسپتال کی فضا خاموش اور سوگوار ہے.
وہ ہسپتال کے داخلی دروازے سے اندر قدم رکھتی ہے اسے کمرہ.نمبر ۵ جانے کی جلدی ہے. تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے اسے دائیں راہداری سے ننھی قلقاریوں کی گونج میں مبارک سلامت کی آوازیں سنائی دیتی ہیں. . یہ لیبر روم کی راہداری ہے. کسی خاندان میں خوشگوار اضافے نے جنم.لیا ہے. کسی نئے فرد کی آمد ہوئی ہے اہلخانہ کے چہرے خوشی سے دمکتے ہیں. گلاس ونڈوز کے باہر بارش کی جل تھل جاری ہے.
خیال کی رو بھٹک کر چودہ اکتوبر کی اس سہ پہر میں جا پہنچتی ہے جب اسلام آباد کی خزاں بھری سہ پہر میں نئی کونپل پھوٹنے کی اطلاع ملتی ہے اور اسلام آباد کی فضائیں خوشی کی نئے احساس سے ہمکنار ہوتی ہیں .
اور آج وہ کونپل مرجھائی ہوئی ہے. . .
آج ۱۱ اگست ذوالأید کو سی ایم ایچ کے اونکولوجی ( کینسر) ڈیپارٹمنٹ بون میرو ٹیسٹ کے لئیے جانا ہے.
صبح ۷ بجے کا وقت ہے. . . اس خیال کے آتے ہی قدموں کی تیزی بڑھتی ہے. . . وہ چلڈرن ہسپتال کے وارڈ نمبر ۱ میں قدم رکھتی ہے. کمرہ نمبر ۱ میں مچی ہڑبونگ اور چیخ و پکار کسی انہونی کا پتہ دیتی ہے. وہ.کمرہ نمبر ۵ سے چند قدم کے فاصلے پہ ہے. . قدموں کی رفتار میں سستی آتی ہے. وہ یکدم چلتے چلتے رکتی ہے. کمرہ نمبر ۱ سے اسٹریچر پر اکھڑی سانسیں لیتا وہ ۱۰ سالہ بچہ اس کے سامنے سے گزرتا ہے. اس کے ہاتھ میں پکڑے موبائل کی تیز بیپ بجتی ہے. بچے کے اسٹریچر کے ساتھ چلتے وہ فون کان سے لگا کر دوسری جانب سے آتی آواز سنے بغیر " میں ابھی آتی ہوں " کہہ کر کال منقطع کرتی ہے.
بچے کو کیا ہوا ہے؟ ؟؟
اسٹریچر کے ساتھ بھاگتی اس کی ماں کو مخاطب کرتے اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہیں. . .
بچے کی اکھڑتی سانسیں کسی برے سانحے کی پیش گوئی کرتی ہیں. بچے کی ماں اپنی دکھ بھری نظریں اس پہ گاڑ کے دعا دیتی ہے اللہ ذوالأید کو شفا دے. . .
آمین کہتے وہ اس بری گھڑی کا حصہ بننے سے بچنے کے لئیے کمرہ نمبر ۵ کی طرف بھاگتی ہے.
ذوالأید ہسپتال کے بیڈ پہ بیٹھا گاڑیوں کی لمبی قطار کے ساتھ کھیلتا ہے. اسے کھیلتے دیکھ کے دل.خوشی کی نئی کیفیت سے ہمکنار ہوتا ہے.
محمد! میری جان طبیعت کیسی ہے؟ ؟ بہت پیار سے ذوالأید کو محمد کہنے والی خالہ اسے خود سے لپٹاتی ہے.
خالہ جانی آپ بہت لیٹ آئی ہیں. . گھر میں سو رہی تھیں نا؟ ؟ شکوہ آتا ہے. .
نہیں میری جان میں تو بہت جلدی اٹھ گئی تھی. باہر بارش ہے آتے آتے لیٹ ہو گئی. آپ کے چھوٹے بہن بھائی بھی گھر پر اکیلے تھے نا.
خالہ میں ریموٹ کنٹرول.والی گاڑی لوں گا ماموں کو فون کر کے کہیں میری گاڑی لے آئیں.
میرا شہزادہ جو مانگے گے آجائے گا بیٹا. آپ بتاؤ صبح کی دعائیں پڑھیں؟
خالہ میں نے سب پڑھ لیں .
نقاہت بھری آواز گزشتہ دنوں سے بہتر تھی.
ذوالأید حفاظت کی دعا پڑھی؟ ؟
پورے تین دفعہ پڑھی ہے
مایوسی کے اندھیرے چھوٹتے ہیں. امید کی کرنیں ماحول کو منور کرتی ہیں.

دل اب بھی کسی انجانے خوف سے لرزتا ہے.
ذوالأید کے آگے سے گاڑیاں ہٹا کے وہ اسے خود سے لپٹاتی ہےاس کے لمس میں اجنبیت ہے.
اس کے پھول جیسے کھلتے گال مرجھائے ہیں. اس کا روئی کی مانند نرم وجود سخت ہڈیوں والے ڈھانچے میں تبدیل یو چکا ہے. اس کے بازو بے دم ہیں. وہ بازو جنہیں وہ خالہ کے گلے میں ڈال کے فرمائشیں کرتا تھا آج اہنا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے. ایک آنسو آنکھ سے گرکر ذوالأید کے بالوں میں چمکتا ہے.
محمد! خالہ کا بیٹا کتنا بہادر ہے؟ ؟؟
سوال پوچھتے ہوئے وہ ذوالأید کی والدہ کی ڈری سہمی آنکھوں کو دیکھتی ہے. اسے خاموش نگاہوں سے دلاسہ دیتی ہے.
خالہ میں گینڈے سے بھی نہیں ڈرتا.
گینڈا ذوالأید کی دنیا کا اہم حصہ رہا ہے. اسے گھر سے باہر اکیلے نہ نکلنے دینے کے لئیے گینڈے سے ڈرایا جاتا رہا ہے. ذوالأید گینڈے پر بہت سی کہانیاں بزبان خود اور بہ خیال خود گھڑ کے خاندان کے چیدہ چیدی افراد کو سنا چکا ہے. گینڈا اس کی دنیا کی وہ خوفناک ترین ہستی ہے جس سے اب وی نہیں ڈرتا.
وہ نہیں جانتا تھا کہ ڈرنے کے لئیے صرف جانور نییں ہوتے بعض درندے ان دیکھے بھی ہوتے ہیں. بعض ڈر ان سنے بھی ہوتے ہیں.

جاری ہے
 

با ادب

محفلین
پڑھنے والوں سے بہت معزرت کہ وقت کی شدید قلت کے باعث میں مسلسل لکھ نہیں پاتی ..اور لکھ کر پھر موبائل پہ ٹائپ کرنے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے.
اب بھی لکھا تو کافی ہے لیکن ٹائپ اتنا ہی ہو پایا. امید ہے جلد از جلد پورا کرنے کی کوشش کروں گی.
آپ کے تحمل کا شکریہ
 
Top